ویڈیوز ،بیان حلفی اورمریم نواز

مریم نواز جھانسی کی رانی کا نیا اور پرْشکوہ روپ بن کر بیچ میدان سب کو للکار رہی ہیں۔حسن’ حسین لندن کی آرام دہ پناہ گاہ میں محفوظ ہیں۔ مریم نواز نے ثابت کردیا ہے کہ جدید زمانوں میں بیٹیاں’ بیٹوں سے بڑھ کر سیاسی سمیت ہر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہوں نے جج ارشد ملک کو ویڈیو کے ہتھیار سے منصف سے چشم زدن مجرم بنا ڈالا ہے۔کیا زمانہ آن لگاہے ،دوسروں سے بیان حلفی لینے والے کو خود بیان حلفی دینا پڑگیا۔ اسے کہتے ہیں سیاستِ زمانہ’ قیامت کا منظر ہے۔مریم بی بی اپنے خاندان اور والد کی سیاسی بقا کیلئے آخری جنگ، آخری دائو اور آخری حملے کی تیاری میں ہے۔ اب توہم نہیں تو پھر ریاست بھی نہیں کی حد تک معاملہ پہنچ چکا ہے۔ تخت یا تختہ کا یہ فائنل راونڈ پاکستان کے لئے بھی فیصلہ کن ہوگا۔ یہ اعصاب شکن لڑائی کا حتمی مرحلہ ہے۔ مریم نوازشریف نے چاچا جی کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لیا ہے۔ عدلیہ کا 16 جولائی کو سماعت کے لئے تاریخ مقرر کرنا اور جج صاحب کو گھر روانہ کرنا مریم بی بی کی ابتدائی فتح ہے۔یہ سب فساد ایسے موقع پر ہورہا ہے جب وزیراعظم عمران خان واشنگٹن یاترا پر جانے والے ہیں اور ہم یک زبان ہوکر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم متحد ہیں۔
امریکہ کو پاکستان سے زیادہ دلچسپی افغانستان میں درپیش مسائل سے ہے۔ اسے کیا لگی کہ کسی کے گھر میں کیا ہورہا ہے جب اس کے اپنے گھر میں لاشے آرہے ہوں۔ صدر ٹرمپ دوبارہ صدارت کا تاج سجانا چاہتے ہیں۔ اس لئے افغانستان میں طالبان سے معاملہ طے کرنا اور اپنی افواج کو نکالنا چاہتے ہیں۔عدلیہ وڈیوز کی صورت میں سیاست کا پہلا مرحلہ مریم نواز بلاشبہ جیت چکی ہیں لیکن جج کو بلیک میل کرنے میں سیاسی جماعت کی ساری قیادت کے ملوث ہونا ثابت ہو جائے تو فتح کے شادیانے غم کے نوحوں میں بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیاجارہا ہے کہ جج کو مسلم لیگ (ن) والوں نے پھنسایا، گھیر گھار کر اپنے جال میں پھانسا۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ جج کی وڈیو کے معاملے میں عدلیہ یا فوج کے نام شامل نہیں جیساکہ مسلم لیگ (ن) والے دھمکی آمیز انداز اپنا رہے ہیں۔ ان کی تان بار بار اسی بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ اور پردہ نشینوں کے نام بھی ہیں، چلمن سرکی تو کئی چہرے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ ہے وہ جارحانہ انداز جو ریاستی اداروں کے لئے استعمال ہورہا ہے۔
سابق جج ارشد ملک کہتے ہیں،فروری2018ء میں احتساب عدالت نمبر دو کے جج کے طورپر میری تقرری کے کچھ عرصہ بعد میرے دوجاننے والوں مہرجیلانی اور ناصر جنجوعہ سے میں ملا۔ اس ملاقات کے دوران ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ جج کے اس منصب پر میری تعیناتی اس کی سفارش پر ہوئی ہے جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اثر رکھتا تھا۔ اپنی بات پر زوردیتے ہوئے اس نے ساتھ آئے آدمی سے کہا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں بتایاتھا کہ ارشد ملک کو جج لگایاجارہا ہے۔ میں نے اس دعویٰ کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا تھا لیکن ناصر جنجوعہ سے کہاکہ آپ کومیرانام تجویز کرتے ہوئے کم ازکم میری رائے تو پوچھ لینا چاہئے تھی کیونکہ میری ضلع میں بطور سیشن جج تعیناتی ہونے والی تھی۔اگست 2018ء میں ریفرنس نمبر18 (فلیگ شپ ریفرنس) اور 19 (ہل میٹل ریفرنس) میری عدالت میں منتقل کردئیے گئے۔ جب یہ دونوں ریفرنس زیرسماعت تھے، مجھ سے متعدد مواقع پر نوازشریف کے حامیوں اور اس سے وابستہ افراد نے مطالبات، ترغیبات اور دھمکیوں کے ساتھ رابطہ کیا کہ نوازشریف اور دیگر ملزمان کو چھوڑ دو۔ ایک تقریب میں ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی مجھے ایک طرف لے گئے اور منت سماجت کرنے لگے کہ دونوں ریفرنسوں میں رہائی کا حکم دوں۔ اس نے مجھے کہاکہ نوازشریف کو احتساب عدالت کے لئے جج کے طورپر میرا نام اس نے تجویز کیا ہے۔ اگر تم نے رہائی کا حکم نہ دیا تو اس کی ذاتی طورپر بڑی بے عزتی ہوگی۔ جس پر اس وقت میں نے کہاتھا کہ ’اللہ بہتر کرے گا، انصاف اللہ کا منصب ہے اور اللہ ناانصافی نہیں کرتا۔‘‘
ٹرائل کے مرحلے پر ناصرجنجوعہ اور مہر جیلانی نے مجھ سے پھر رابطہ کیا۔ اس مرتبہ انہوں نے پیسے کی لالچ دی۔ اس نے کہاکہ میاں صاحب جو بھی آپ کا مطالبہ ہوگا، دینے پر آمادہ ہیں۔ میں نے کہاکہ 56سال سے چھ مرلے کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ ریفرنسوں کا فیصلہ اپنے حلف کے مطابق کروں گا اوریہ کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس دس کروڑ روپے کے مساوی یوروز موجود ہیں جن میں سے فوری طورپر دو کروڑ روپے اس کی باہر موجود گاڑی میں پڑے ہیں۔ اس نے یہ کہہ کر مجھے مزید ترغیب دینے کی کوشش کی کہ آپ ایک تنخواہ دار آدمی ہیں، یہ ایک سنہری موقع ہے کہ مالی طورپر اپنا مستقبل محفوظ بنالوں۔ تاہم میں نے رشوت کی پیشکش ٹھکرادی اور میرٹ پر قائم رہنے کا عزم ظاہر کیا۔پھر دوبارہ پیشکش کے ساتھ جسمانی نقصان اور ناصر بٹ کے ذریعے بدنام کرنے کی چھپی دھمکی بھی دی گئی جس کا میں نے اپنی پریس ریلیز میں بھی ذکر کیا ہے۔ ناصر بٹ نے کہاکہ میاں نوازشریف کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کیونکہ انہوں نے اپنے سیاسی اثرورسوخ سے مجھے چار پانچ قتل میں سزا سے بچایا ہے۔ میاں نوازشریف کی اس مقدمے میں مدد کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔فروری2019ء کے وسط میں، میں خرم یوسف اور ناصر بٹ سے ملا۔ گفتگو کے دوران ناصر بٹ نے کہاکہ ناصر جنجوعہ نے آپ کو ملتان والی وڈیو دکھائی ہے‘‘۔ میں فوری طورپر یہ بات نہ سمجھ سکا۔ میں نے کہاکہ مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ آپ کیا بات کررہے ہو۔ اس نے شاطرانہ انداز میں کہاکہ چند دن میں آپ کو وہ وڈیو دکھائیں گے۔ اس کے کچھ عرصے بعد میاں طارق (ایک پرانے جاننے والے جب میں ملتان میں 2002-03- کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھا )اور ان کا بیٹا ملنے آئے۔ میاں طارق نے مجھے ایک غیراخلاقی وڈیو دکھائی اور کہاکہ یہ تم ہو۔ یہ میرے لئے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ وڈیو دکھانے کے بعد ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ نے دبائو اور بلیک میل کرنا شروع کردیا کہ میں نوازشریف کی مدد کروں۔ اس نے کہاکہ ایک ریفرنس میں تو وہ بری ہوگئے ہیں۔ اب آپ ایک آڈیو ریکارڈ پیغام ریکارڈ کرائیں کہ میں نے مقتدر حلقوں کے انتہائی دبائو میں ثبوت نہ ہونے کے باوجود ہل میٹل ریفرنس میں سزا دی ہے۔ناصر جنجوعہ نے مجھے تسلی دی کہ یہ پیغام صرف میاں نوازشریف کے لئے ہوگا نوازشریف کو سنانے کے بعد یہ ریکارڈنگ ضائع کردی جائے گی۔ میں نے انکار کردیا لیکن اس نے اصرار کیا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ میں اس کے ساتھ جاتی عمرہ چلوں اور ذاتی طورپر اپنے بیان کو دہرائوں۔ اس نے ملتان والی وڈیو کی دوبارہ دھمکی دی۔ میں چھ اپریل کو جاتی عمرہ گیا جہاں نوازشریف نے ذاتی طورپر استقبال کیا۔ اس ملاقات میں نوازشریف کے سامنے میں نے ناصربٹ سے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ عدلیہ اور فوج کے دبائو پر کیا ہے۔ جب میں نے نرمی سے نوازشریف سے کہاکہ ہل میٹل کیس میں سزا میرٹ پر ہوئی ہے، یہ بات انہیں پسند نہیں آئی۔اپیل کے مسودہ پر میں نے جو تبصرہ کیاتھا، اسے بھی خفیہ طورپر ریکارڈ کیاگیا اور گفتگو کے حصوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیاگیا۔
28 مئی 2019ء کو اہل خانہ کے ہمراہ عمر کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوگیا۔ یکم جون کو عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد ناصر بٹ مجھے مسجدنبوی کے باہر ملا اور مجھے کہا کہ میرے ساتھ چلو حسین نواز سے ملاقات کرنی ہے۔ جب میں نے مزاحمت کی، حسین نوازشریف کا انداز جارحانہ اور منتقمانہ تھا۔ اس نے مجھے پچاس کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی اور مجھے اور میرے خاندان کو برطانیہ یا کینیڈا میں رہائش دلانے کا بھی کہا جبکہ میری مرضی کی نوکری اور نفع بخش کاروبار کابھی کہا۔ اس کے بدلے اس کا تقاضا تھا کہ مجھے اس بنیاد پر استعفیٰ دینا ہوگا کہ میں نے نوازشریف کو کسی ثبوت کے بغیر اور شدید دبائو کی بنیاد پر سزا دی ہے۔اس نے یہ بھی کہا کہ صرف وہ اسے اس مصیبت سے بچا سکتا ہے جو رسوائی اور بدنامی کی صورت میں پاکستان میں مجھے درپیش آسکتی ہے۔
جج صاحب لکھتے ہیں کہ ’’میں آٹھ جون کو واپس پاکستان آگیا۔ ناصر بٹ مجھے فون کرتا اور مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا رہا۔ خرم یوسف کے ذریعے بھی ناصر بٹ نے یہی تقاضا اور پیغام دہرایا۔ میرا جواب منفی میں تھا۔‘‘ آخر میں انہوں نے لکھا کہ ’’میں ایک بار پھر یہ اعادہ کرتاہوں کہ ہل میٹل اور فلیگ شپ ریفرنسوں میں سزائیں خالصتاً میرٹ اور دستیاب شواہد کی بنیاد پر دی گئی ہیں۔‘‘ جج ارشد ملک کا طرز زندگی عامیانہ حدود کو چھو رہا ہے جو کہ کسی بھی جج کیا عام انسان کے لئے بھی شایان شان نہیں ہے لیکن جس ملک میں احتساب کے سب سے بڑے ادارے کا سربراہ ایک خوبرو درخواست گزار کو سر تا پا چومنے کی خواہشات کا اظہار کرنے کے بعد بھی اپنے منصب پر براجمان اخلاقیات کے درس دے رہا ہوتو جج ارشد ملک تو بڑی آسانی سے دستیاب وڈیوز کو ذاتی زندگی میں مداخلت قرار دے کر مطمئن ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ عدلیہ کو درپیش وڈیوز کی تشہیر اور پھیلاؤiCloud میں ٹیکنالوجی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے
کہتے ہیں کہ فون ہارڈ وئیر سے تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا گیا تھا لیکن ماہر فن کاروں نے اسے برقی بادلوں (iCloud) کے سٹور سے نکال کر دوبارہ زندہ کردیا۔مریم بی بی نے پنڈورہ باکس بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے اس سے نکلنے والی بلائیں چاروں اور سے آفتیں بن کر ریاستی اداروں پر نازل ہورہی ہیں۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن