ایران کا بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے نکالنے کا خوش آئند اقدام اور چین کی ایرانی جوہری معاہدہ کی بھرپور حمایت
ایران نے چاہ بہار بندرگاہ سے افغانستان کی سرحد کے نزدیک واقع شہر زاہدان تک ریلوے لائن بھارت کی مدد کے بغیر خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت کو اس منصوبے سے باہر نکال دیا ہے۔ ایران نے یہ فیصلہ ریل کے اس منصوبے کی تعمیر کیلئے بھارت کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی اور اسے شروع کرنے میں تاخیر کے سبب کیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایران اب اس منصوبے کو بھارت کے تعاون کے بغیر شروع کریگا۔ بھارت اور ایران کے مابین یہ معاہدہ اس وقت طے پایا تھا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے تہران گئے تھے۔ یہ معاہدہ بھارت‘ افغانستان اور ایران کے مابین ایک متبادل تجارتی راستہ تعمیر کرنے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے سے الگ کیا جانا بھارت کیلئے ایک بڑا دھچکہ ہے اور ایران نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ایران چین کے ساتھ 25 برس کیلئے سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کرنے جارہا ہے۔
دوسری جانب چین نے ایرانی جوہری مسئلہ کے حوالے سے مشترکہ جامع منصوبہ (جے سی پی او اے) کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چین کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں ترجمان وزارت خارجہ ہواچھون اینگ نے کہا کہ پانچ سال قبل پی 5 پلس ون(چین‘ روس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ فرانس اور امریکہ)‘ یورپی یونین اور ایران نے ویانا میں جے سی پی او اے معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کی بعدازاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کے ذریعے توثیق کی گئی تاہم امریکہ نے حالیہ برسوں میں یکطرفہ اقدامات اٹھائے اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کی۔ امریکہ نے مئی 2018ء میں جے سی پی او اے سے دستبرداری اختیار کی اور دیگر فریقین کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ چینی ترجمان کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کی اس طرح کھلی خلاف ورزی کے باعث ایرانی جوہری مسئلہ پر کشیدگی برقرار ہے جبکہ چین اس معاہدے پر کاربند ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا خبثِ باطن رکھنے والے بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کی نیت سے ایران اور افغانستان کو چکمہ دیکر انہیں سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ اس مقصد کے تحت بھارت کی مودی سرکار نے پہلے افغان صدر اشرف غنی کو پاکستان سے برگشتہ کیا جو اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اچھے مراسم کی خواہش کا اظہار کررہے تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے اسلام آباد اور جی ایچ کیو کا دورہ کرکے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق بھی کرلیا تھا مگر مودی نے اپنی بدنیتی کے تحت اشرف غنی کو نئی دہلی مدعو کرکے انہیں ایران کی چاہ بہار پورٹ کے ساتھ منسلک ہونے کا سہانا خواب دکھایا جبکہ مودی نے تہران جا کر ایران کو چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں معاونت کا چکمہ دیا اور اس بہانے سے بھارت نے درحقیقت پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلانے کیلئے چاہ بہار سے بلوچستان میں داخلے کا راستہ نکال لیا۔ بھارتی ’’را‘‘ کے حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے اسی راستے سے پاکستان آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا اور دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا۔ اسکی گرفتاری بھی چاہ بہار کے راستے سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے عمل میں آئی اور اس بنیاد پر پاکستان اور ایران کے مابین سردمہری کی فضا بھی پیدا ہوئی جو مودی سرکار ہی کا ایجنڈا تھا۔
اسی طرح اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان امریکہ کے دل میں بھی سی پیک کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا کیونکہ ایک تو اپنے ’’فطری اتحادی‘‘ بھارت کے مقابل پاکستان کا اقتصادی طور پر مستحکم ہونا اسے گوارا نہیں ہو سکتا تھا اور دوسرے سی پیک کے ناطے پورے خطے اور اقوام عالم میں چین کے اثرونفوذ کا بڑھنا اسکے دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے زعم پر ضربِ کاری لگنے کے مترادف تھا۔ اس تناظر میں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازشوں کو امریکی آشیرباد بھی حاصل ہو گئی اور امریکہ نے اسی تناظر میں شمالی علاقہ جات کے حوالے سے سی پیک کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی مگر چین نے سی پیک کی لوکیشن کے حوالے سے امریکہ اور بھارت کے کسی اعتراض کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔ سی پیک کی حیثیت جہاں اس خطے کیلئے گیم چینجر کی ہے جس کے ناطے چین اور پاکستان کیلئے عالمی اور علاقائی منڈیوں کے دروازے کھل رہے ہیں وہیں سی پیک پاکستان اور چین کی دفاعی ڈھال بھی بن رہا ہے اور اس بنیاد پر دونوں ممالک کی شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی مزید گہری اور مزید بلند ہو رہی ہے چنانچہ بھارت کو سی پیک اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب ایران کے جوہری پروگرام کی بنیاد پر اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرانے والے امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت ایران کی چاہ بہار پورٹ کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ کردیا جو درحقیقت بھارتی سازش کے تحت ہی ایران کو سی پیک سے ہٹائے رکھنے کا ایک چکمہ تھا۔
بے شک چین اور ایران کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رہے ہیں جس کے ناطے چین اور بھارت کے مابین 42‘ ارب ڈالر کے حجم کے قریب تجارتی معاہدے ہوئے۔ اسی طرح بھارت اور ایران کے مابین چاہ بہار پورٹ کے علاوہ متعدد تجارتی معاہدے بھی ہوچکے ہیں تاہم اس خطے میں بھارت کے کھلتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم کے باعث چین اور ایران کو بھی اسکے اصل چہرے سے آشنائی ہوچکی ہے جبکہ چین اپنی سرحد سے ملحقہ بھارتی علاقے میں بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت اور اسکی اشتعال انگیزیوں پر بھارتی فوج کو متواتر دو بار سبق سکھا چکا ہے۔ بھارت پاکستان کی سلامتی کے تو شروع دن سے درپے ہے جس نے کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا کر درحقیقت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کئے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں اس خطے میں امریکہ اوربھارت کے بگاڑے گئے طاقت کے توازن کو بحال کرنے کیلئے خطے کے ممالک کے ایک مضبوط علاقائی بلاک کی ضرورت تھی جس کی فضا بھارت کی مودی سرکار نے علاقے کے تمام ممالک کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کرکے خود ہی ہموار کر دی ہے۔ اس فضا میں ایران کا بھارت کو چاہ بہار پورٹ کے منصوبے سے باہر نکالنا بھارت ہی نہیں امریکہ کیلئے بھی بڑا دھچکہ ہے جبکہ جوہری پروگرام کو فروغ دینے کیلئے ایران کو چین کی معاونت حاصل ہونے سے اس پر عائد امریکی پابندیاں بھی بے وقعت ہو جائیں گی چنانچہ اب خطے میں چین‘ پاکستان اور ایران پر مشتمل ایک مضبوط بلاک تشکیل پانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں جس سے اس خطے میں امریکہ اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا بھی مؤثر توڑ ہو جائیگا اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت بھی مل جائیگی۔ یہ بلاشبہ پاک چین دوستی کے ہی ثمرات ہیں۔
چین‘ ایران اور پاکستان باہم مل کر امریکی بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا مؤثر توڑ کرسکتے ہیں
Jul 16, 2020