عرب وعجم میں آیاصوفیہ کیلئے صف ماتم بچھی ہوئی ہے، مسئلہ چرچ یا مسجد کا نہیں ہے مادر پدر آزاد سیکولر روایات کی ترکی سے رسوائی اور پسپائی کے بعد کفن دفن کا ہے کہ صدیوں بعد آیا صوفیہ سے 24 جولائی کو اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند ہو نا شروع ہو ں گی۔ اذان بلالی کے مقدس نغمے گونجیں گے۔آیاصوفیہ کا یہ تاریخی چرچ سلطان محمد فاتح نے باضابطہ خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا جس طرح برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سینکڑوں گرجا گھر اور چرچ مسلمان خرید کر مساجد بنا چکے ہیں جس پر کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور خلافت عثمانیہ کی بحالی کاعلم کیا لہرایا کہ مخالفین حزن والم کی تصویر بن گئے، صدر رجب طیب اردگان نے سلطان محمد فاتح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس بت کو پاش پاش کردیا ہے جس نے پوری امت کا حوصلہ توڑ دیا تھا، اسلامیان امت کے دل جیتنے والے اردگان تاریخ میں امر ہوگئے۔ بیت المقدس، سپین اور بابری مسجد پر غنڈہ گردی کرنے والے دہشت گردوں پر آنکھیں بند رکھنے والے عالمی ادارے، شخصیات اور حکومتوں کی زبانیں یک لخت عالمی ورثے، بین المذاہب ہم آہنگی اور انصاف واصول کی دہائیاں دینے لگی ہیں، مشرقی وجود میں مغربی زبانیں لئے پھرنے والوں کو یکا یک انصاف پسندی کا دورہ پڑگیا ہے۔ 1934 کے بعد 2020 ء میں دوبارہ صدائے اللہ اکبر گویا مخالفین پر ’ضرب کلیم‘ ثابت ہوئی ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے قاتلوں کے شریک ملزمان نے کمال اتاترک کی صورت اسلام کے وجود پر جو کاری ضرب لگائی تھی، وہ تمام کی تمام محنت ضائع ہوتے دیکھ کر امریکہ ومغربی ممالک سے آہ وبکا جاری ہے۔ ترکی کی اعلیٰ عدلیہ ’’کونسل آف اسٹیٹ‘‘ نے 24 نومبر 1934 کے ’آیا صوفیہ‘ کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ کمال اتاترک کے ترکی کا خاتمہ اور سلطنت عثمانیہ کے دور رفتہ کی یاد تازہ ہوگئی۔
تار یخی شاہکاروں کے ٹرسٹ اور ماحولیاتی انجمن کی جانب سے آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم میں تبدیل کرنے سے متعلق کابینہ کے فیصلے کے خلاف کونسل آف اسٹیٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ کونسل نے 2 جولائی کی سماعت کے دوران فریقین کی شکایت کا جائزہ لیا ، فریقین کا موقف سنا اور فیصلہ محفوظ کرلیا جسے 10 جولائی 2020 کو کمال اتاترک کی کابینہ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق ’’آیا صوفیہ فاتح سلطان محمد ٹرسٹ کی ملکیت ہے جسے مسجد کے طور پر عوام کی خدمت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔‘‘فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’آیا صوفیہ ٹرسٹ کی دستاویز میں واضح طور پر تحریرہے کہ ’’آیا صوفیہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
رجب طیب اردگان نے کہا کہ ’’آیا صوفیا کے دروازے مقامی و غیر ملکی، مسلم و غیر مسلم کے لیے کھلے رہیں گے۔‘‘ قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’’بنی نوع انساں کا ورثہ آیا صوفیہ اپنی نئی حیثیت کے ساتھ ہر کسی سے بغل گیر ہونے، کہیں زیادہ مخلصانہ ماحول کے ساتھ اپنے وجود کو جاری رکھے گا۔‘‘
دنیا کو ترک عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اردگان کا کہنا تھا کہ ’’اپنے نظریے اور سوچ سے ہٹ کر کوئی بھی موقف اور بیان ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔ ویٹی کن کو میوزیم کی حیثیت میں بدلتے ہوئے اسے عبادت کے لیے بند کرنے کا مطالبہ کرنا اسی منطق کی پیداوار ہو گا۔‘‘
جناب اردگان نے سلطان محمد فاتح کے 1453 میں آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے واقعہ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹھیک 567 سالہ قدیم ایک حق ہے۔ اگر کسی نے اعتقاد کے مرکز پر بحث کرنی ہے تو یہ آیا صوفیہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور غیر ملکیوں سے نفرت کا معاملہ ہونا چاہیے۔‘‘ ترک قوم کے آیا صوفیہ کا ہمیشہ خیال رکھنے کا حوالہ دیتے ہوئے صدر اردگان نے بتایا کہ ’حکمت الٰہی‘‘ کا مفہوم رکھنے والے اس کے اصل نام تک کو ترک عوام نے بدلنے کی کوشش تک نہیں کی۔‘‘انہوں نے بتایا کہ 24 جولائی 2020 بروز جمعہ نماز جمعہ کے ساتھ 86 سال بعد آیا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
ترکی میں قائم 435 گرجا گھروں میں عبادات کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے ترک صدر نے کہاکہ ’’یہ امر مختلف مذاہب کو ایک سرمائے کی نگاہ سے دیکھنے والے ترکوں کی مفاہمت کا مظہر ہے۔‘‘ لیکن اصل بات انہوں نے آخر میں بیان کی کہ ’’آیاصوفیہ کا جنم نو مسجد ِ اقصی کی آزادی کا مژدہ دیتا ہے۔‘‘
آرتھو ڈوکس مسیحیت کے اصل علمبردار روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشینن نے بیان دیا کہ ’’اس فیصلے نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے جو میرے خیال میں ترکی کا اندرونی معاملہ ہے ٰلہٰذا ہمیں یا دیگر ممالک کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ثقافت و تہذیبی اہمیت کا حامل ورثہ ہے۔‘‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر دوبارہ کھولنے کے فیصلہ پر مسرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’’ترک عوام اور عالم اسلام نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ایران بھی اس فیصلے سے خوش ہے۔‘‘ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے واضح پیغام دیا کہ ’’ہم ترکی کی خودمختاری کے حق میں مداخلت پر مبنی تبصروں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘‘
دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلانے والی اس تاریخی عمارت ’آیا صوفیہ‘ کی مسجد کے طورپر بحالی پر ایک طوفان اٹھایاگیا ہے۔ مخالفت میں دلائل کے انبار لگائے جارہے ہیں۔ نجانے یہ زبانیں، یہ دلائل، یہ مسائل اور ان کا بیان کرنے والے 1934ء کے ظلم کے خلاف کیوں خاموش رہے کہ ایک مسجد کو عجائب گھر میں کیوں بدلاگیا؟ بدباطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے تاریخی پس منظر، کسی ملک کی خودمختاری، عالمی قانون، تاریخی ورثہ سمیت ہر ضابطے کی دھجیاں خوب خوب اڑائی جارہی ہیں تاکہ صدر اردگان کے فیصلے کو غلط ثابت کیاجائے۔ ترک عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کردیا ہے اور اس کی تفصیل سامنے آنے پر اس کی مزید وضاحت بھی ہوجائے گی کہ سلطان محمد فاتح نے اس مقام کو ’وقف‘ کیاتھا۔ یہ مقام مسیحیوں سے خرید کر وقف کیاگیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟
مسیحی آرتھوڈوکس یا یونانی کٹر مسیحیوں کی علامت آیا صوفیہ یونانی بادشاہ جسٹینین اول نے تعمیرکرایاتھا۔ بت پرست یونانی بادشاہ قونسٹنٹین کے مسیحیت قبول کرنے پر پوری ریاست مسیحی ہوگئی تھی۔ یونانی آرتھوڈوکس بعض معاملات میں مسلمانوں کے طرح ہیں جیسا کہ سور نہیں کھاتے، شراب نہیں پیتے، یہ عقیدہ بھی نہیں رکھتے کہ حضرت عیسیؑ صلیب پر چڑھ کر سب کے گناہ بخشوا گئے ہیں، 25 دسمبر کو کرسمس نہیں مناتے۔
اس چرچ سے متعلق یونانی آرتھوڈوکس مسیحیوں کا عقیدہ تھا کہ ان پر کوئی حملہ کرے گا تو آسمان سے فرشتے اتر کر ان کی حفاظت کریں گے اور ان کے دشمنوں کو تہس نہس کردیں گے۔ اکیس سالہ سلطان محمد فاتح نے بازنطینیوں کو شکست فاش دی اور وہ قسطنطنیہ (آج کا استنبول) میں داخل ہوا تو مسیحی اپنے عیقدے کے مطابق چرچ میں چلے گئے۔ سلطان محمد فاتح جب اس ستون سے آگے بڑھ آئے جس کے بارے میں ان کا تصور تھا کہ ان کے دشمن اسے عبور نہیں کرسکتے تو ان کو شدید جھٹکا لگا۔
اس موقع پرسلطان محمد فاتح نے کہا تھا کہ ’’میں آج تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد نے فتح مکہ کے بعد وہاں کے لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ لہذا کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔ 99 فیصد مسیحی آبادی تھی جس کی اکثریت مسلمان ہوگئی اور باقی ماندہ ایک معاہدہ کے تحت یونان چلے گئے۔
آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کی وجہ عسکری حکمت عملی تھی۔ سلطان فاتح مسیحیوں کے عقیدے کے بارے میں جانتے تھے اور جب تک وہ ان کے عقیدے کو غلط ثابت نہ کرتے، بازنطینی فوج لڑتی رہتی۔ اسی لئے انہوں نے یہ عمارت خریدی اور ’وقف‘ قائم کیا۔ ورنہ فاتح ہوکر وہ اس پر قبضہ بھی کرسکتے تھے۔ لہذا اس کا صحیح تناظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کی علامتی اہمیت کو بدلنا ضروری تھا۔
سلطان محمد فاتح کے برعکس سپین کے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ایزابیلا نے تین ہزار مساجد گرجاگھروں میں تبدیل کردی تھیں۔ مسلمانوں کے قتل عام اور دیگر مظالم اس کے علاوہ تھے۔ اس کے ظلم کا یہ عالم تھا کہ ایک لاکھ 75 ہزار یہودیوں کو تین دن دئیے کہ مسیحی ہوجائو ورنہ قتل کردیا جائے گا۔ ایک لاکھ یہودیوں کو خلافت عثمانیہ میں پناہ ملی۔ 75 ہزار باقی رہ جانے والے یہودیوں کے کنیسا کلیسا میں بدل دئیے گئے اور وہ ظاہراً مسیحی ہوگئے۔ (جاری)