وادی گلوان کے علاقے پر چین کے قبضہ اور بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں اور ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کے بعد مودی سرکار نے اپنا بھرم رکھنے کیلئے بہت جھوٹے دعوے کئے مگر سچائی پر پردہ نہ ڈال سکے اور بالآخر ایکچوئل کنٹرول لائن سے انخلاء پر رضامندی ظاہر کر دی۔ بھارت اور چین کے مابین اس سلسلے میں جو معاہدہ سامنے آیا ہے اس میں اگرچہ چین نے بھی اپنی فوجیں واپس بلانے کی بات کی ہے مگر لداخ کے جس علاقے پر قبضہ کیا گیا ہے اس سے دستبرداری کی بات نہیں کی۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین کہاں سے فوج واپس بلائے گا اور بھارت فوج کس جگہ سے واپس جائے گی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ بھارتی فوج خود اپنے علاقے سے ہی پیچھے ہٹے گی۔ اس سارے عمل کو بھارت میں مشکوک سمجھا جا رہا ہے اور عوام اور اپوزیشن نے مودی سے اس دعویٰ کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ چین کو زیر قبضہ علاقہ سے واپس کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے متذکرہ معاہد ہ کو مودی سرکار کی بدترین شکست قرار دیا ہے۔ عوامی سطح پر نریندر مودی کو سرنڈر مودی کا نام دیا جا رہا ہے ۔
بھارت کے عوام اگر اپنے 20 فوجیوں کی ہلاکت، درجنوں فوجیوں کی لکڑی، لاتوں اور ڈنڈوں سے دھنائی پر چین کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں تو یہ غیر فطری نہیں ہے۔ نریندر مودی پر چین سے بدلہ لینے اور وادی گلوان کا علاقہ واپس لینے کیلئے عوام کی جانب سے دباؤ کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے مگر حیرت انگیز طور پر راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے دیش بھگتوں (وطن پرستوں) کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں جو بھارتی حکومت کے محض الزامات پر ہی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں لیکن چین کے معاملے میں ان کی زبانیںگنگ ہیں۔ حتیٰ کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو بھی چپ لگ گئی ہے۔ تاہم مودی پر اندر خانے آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کا بھی دباؤ ہے کہ چین کے خلاف کچھ نہ کچھ کیا جائے تاکہ عام لوگوں سے نظریں ملائی جا سکیں۔ مودی سرکار پہلے ہی جن کے چبھتے سوالات کے کٹہرے میں ہے۔ یہ سوال جس نے مودی سرکار کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے ، یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم مودی کے دعویٰ کے مطابق چین سے بدلہ لے لیا گیا ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے یعنی 20 بھارتی فوجیوں کے جواب میں کتنے چینی فوجی ہلاک کیے گئے ۔ اس حوالے سے اگر کوئی تصویر نہیں تو عالمی میڈیا کی ایسی کوئی خبر ہی پیش کی جائے ۔دوسرا سوال جس نے مودی کے دعویٰ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ، یہ ہے کہ وادی گلوان کا جو علاقہ چین سے واپس لیا گیا ہے وہاں بھارتی فوج کی موجودگی نہ صرف بھارتی عوام بلکہ عالمی برادری کو بھی یہاں تک میڈیا کو رسائی دے کر دکھائی جائے۔ چین نے جو یہاں بنکرز بنائے ہیں۔ جو سٹریٹیجک روڈ تعمیر کی ہے اس پر بھارتی فوج کا قبضہ دکھایا جائے۔20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایکچوئل کنٹرول لائن سے ڈھائی سو کلومیٹر دور پہلے خطاب میں بہت جارحانہ الفاظ کا استعمال تو کیا مگر چین کے خلاف کسی سرجیکل سٹرائیک کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ جس طرح پلوامہ واقعہ (درحقیقت ڈرامہ)کے بعد پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کا اعلان کیا گیا تھا ۔بھارت کے عوام یہ توقع رکھتے تھے کہ وزیر اعظم اپنے خطاب میں چین سے بدلہ لینے کی کارروائی کا انکشاف کریں گے مگر صرف الفاظ کی گولہ باری کر سکے۔
بھارت میں عوامی سطح پر یہ دبائو بڑھ رہا ہے کہ بھارت کے فوجی کمانڈروں کی جانب سے کوئی کارروائی کی جائے ۔ چین سے منت سماجت پر مبنی مذاکرات کیوں کر رہے ہیں۔ یہ مذاکرات جو مکمل طورپر ناکام رہے چین کے قبضہ کردہ علاقے میں نہیں بلکہ بھارتی علاقے سے ہوئے جس کا مطلب ہے چین نے بھارتی فوجی کمانڈروں کو بھارتی علاقہ (زیر قبضہ) میں قدم بھی نہیں رکھنے دیا۔ بھارت میں سیاسی اور فوجی امور کے ماہرین حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارتی حکومت اور فوج چین سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر لداخ جیسا واقعہ پاکستان کی سرحد پر ہوتا تو کیا بھارتی کمانڈوز اسی طرح پاکستان سے بار بار مذاکرات ہی کرتے اور یہ مذاکرات ناکام ہونے پر خاموشی کی چادر اوڑھ کر بیٹھ جاتے۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے بھارتی سفارتکاروں سے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا تو اپنے مشن کے عہدیداروں کی تعداد کو کم کر دیا گیا لیکن چین نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ۔ بھارت کی سر زمین پر قبضہ کر لیا جو بدستور برقرار ہے لیکن بھارت میں چین کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج نہیں کیا گیا جبکہ ایسے سنگین واقعہ کے بعد تو چین سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں تو معطل کر کے بھارتی سفیر کو بیجنگ سے واپس کیوں نہیں بلایا گیا۔ بھارت کی جانب سے چین کی درآمدات اور انٹرنیٹ سائٹس پر پابندی کو محض دکھا وا سمجھا جا رہا ہے اگرچہ ملک میں چین کی درآمدات بند کر کے اس کا دماغ درست کردو، کے نعرے لگ رہے ہیں مگر یہ عملاً بہت مشکل ہے۔ کیونکہ بھارت میں الیکٹرانکس سے لے کر آٹو موبائل ، فارما انڈسٹری، تک مینو فیکچرنگ میں چینی سپلائی کا کلیدی کردار ہے۔ چین سے صرف تیار شدہ اشیاء ہی درآمد نہیں کی جا رہیں بلکہ بھارت میں بننے والی چیزوں میں بھی چین سے درآمد کردہ کل پرزے اور خام مواد استعمال ہوتا ہے۔ اسی لئے چین کے بائیکاٹ کا چین سے زیادہ نقصان خود بھارت کو ہوگا کیونکہ اتنے وسیع پیمانے پر متبال ذرائع کا حصول ہفتوں ، مہینوں نہیں بلکہ برسوں کی بات ہے۔
مودی سرکار کی غلط پالیسیوں نے پہلے ہی بھارتی معیشت کو بڑا جھٹکا لگایا تھا اوپر سے کرونا کے باعث لاک ڈاؤن نے صنعتی و تجارتی شعبوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس وقت ملک میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں تباہ، بڑی کمپنیاں شدید دباؤ کا شکار، بنکس سخت بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ملکی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھ کر تین عشاریہ پانچ فیصد ہو گیا ہے۔ مالیاتی بدانتظامی کے نتیجے میں لاکھوں خاندان برباد ہو چکے ہیں ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جون میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارت کی شرح ترقی صفر سے کم چار عشاریہ پانچ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہ اپریل 2020 میں جاری آئی ایم ایف کی رپورٹ کے اندازے کے مقابلہ میں چھ عشاریہ چار فیصد کم ہے۔