اکثر پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں فریش گریجوایٹ اساتذہ تعینات ہوجاتے ہیں ۔ استادا ور شاگردکی عمر میں بہت زیادہ تفاوت نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت میں بہت سی خرابیوں کا یقینی احتمال رہتا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں تو یہ روش عام ہے۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے ۔اس کو روکنا پورے سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں خاندان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت ان خطوط پر کریں کہ انھیں اچھائی برائی کی نہ صرف تمیز ہو بلکہ ان میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ بھی ہو۔ بچوں کو آزادی ضرور دیں لیکن ان کی سرگرمیوں پرگہری نظر رکھیں۔ آج کے بچے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے سوشل میڈیا پر رابطوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کم عمری میں بچوں کو اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے رابطوں پر بھی کڑی نظر رکھیں ۔ آج کے والدین نے خود سوشل میڈیا پر رابطوں کا ایک جہان آباد کر رکھا ہے جہاں دشت نوردی کرتے ہوئے انھیں اپنی بھی خبر نہیں رہتی ۔ بہت سے واقعات میں پانی سر سے گزر جانے کے بعد والدین کی عقل ٹھکانے آتی ہے۔ اولاد کے بہتر مستقبل کیلئے والدین کو ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی اداروں میں درپیش جنسی ہراسانی جیسے چیلنج سے عہدہ برآہونے کیلئے ایک مؤثر طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ مؤثر طریقہ قانونی ہی ہوسکتا ہے۔ اب ہمارے ہاں قانون تو موجود ہے لیکن اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہیں ہوپاتا ۔ایک تو اس قانون کے بارے میں عوام میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر اگر کسی کو ایسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو ہماری پولیس میں اتنا شعور ہی نہیں کہ ایسے معاملات میں کیا رویہ اپنانا ہے۔ ہمارے اکثریتی پولیس اہلکاروں کا دامن تہذیب و شائستگی سے مطلقاً عاری ہے۔ ایسے اکھڑ مزاج پولیس اہلکاروں سے اس طرح کے حساس معاملات میں کارروائی کی توقع عبث ہے۔جہاں تک قانون کی بات ہے تو انسداد ہراسانی کا دس سال پرانا قانون ’کام کی جگہ‘ کے بارے میں انتہائی محدود تشریح کرتا ہے۔ کوئی بھی قانون تحریری شکل میں جتنی بھی عمدہ دستاویز ہو، اس کی اصل اہلیت اور دائرہ ٔ کار کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس قانون کے تحت مقدمات پر کارروائی کاآغاز ہو۔ انسداد ہراسانی کاقانون عمومی نوعیت کا ہے، تعلیمی اداروں میں اس جرم کی روک تھام کیلئے الگ سے قانون سازی ہونی چاہیے ۔ جب تک ہم تعلیمی اداروں میں اس وبا کو روکنے کیلئے الگ سے مخصوص قوانین نہیں بنا تے، موجودہ مبہم قوانین کے ذریعے ا س وبا کی روک تھام ممکن نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس تعلیمی ادارے میں بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہو، نہ صرف ملزموں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے بلکہ ادارے کے منتظمین کے خلاف بھی قانون حرکت میں آنا چاہیے جن کی ناک تلے یہ سب ہورہاہوتاہے ۔ یہ ادارے کے سربراہ کی مبینہ نااہلی ہوتی ہے اور یہ سب اس کی شدید غفلت کے باعث رُونما ہوتاہے۔ طلباء و طالبات ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں جن کے بہتر مستقبل کے تحفظ کے لیے والدین ، اساتذہ ، تعلیمی اور سماجی اداروںکے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (ختم شد)