اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ججز کے خلاف توہین آمیز تقریر کرنے والے آغا افتخار الدین کی معافی مستردکرتے ہوئے سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں افتخار الدین مرزا پر فرد جرم کی کارروائی شروع کر دی۔ ملزم کو فرد جرم کی نقل فراہم کردی گئی۔ سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ افتخار الدین نے مؤقف اپنایا کہ تقریر میں جو کچھ کہا گیا اس پر وہ شرمندہ ہیں۔ اس عدالت میں بھی اور اللہ کی عدالت میں بھی۔ اس لئے وہ عدالت سے معافی مانگتے ہیں۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا آپ پڑھے لکھے ہیں بی ایس سی کی ہوئی ہے‘ ایسے الفاظ کون استعمال کرتا ہے۔ ایسی زبان تو کوئی جاہل بھی استعمال نہیں کرتا۔ ابھی عدالت میں جتنا آپ بولیں گے اتنا کیس خراب کریں گے۔ بہتر ہے کہ وکیل کو بولنے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کے کیس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں، اتنے سارے ممالک آپ نے گھومے ہوئے ہیں معلوم نہیں کہاں کہاں آپکے تعلقات ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آغا افتخار الدین کو ابھی فرد جرم عائد کر رہے ہیں اس کا جواب دے دیں۔ الزامات کو تسلیم کریں یا مسترد کریں۔ چیف جسٹس نے کہا شوکاز میں تین الزامات ہیں جن کو وکیل صاحب ابھی بیٹھ کر پڑھ لیں اور جواب دے دیں۔ جس پر افتخار الدین کی وکیل نے جواب دینے کیلئے عدالت سے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے کیس میں بیان حلفی جمع کرا دیا۔ بیان حلفی میں بہت سنگین نوعیت کی باتیں ہیں۔ بیان حلفی میں مرزا افتخار کا کنکشن شہزاد اکبر اور وحید ڈوگر سے جوڑا گیا۔کس بنیاد پر افتخار الدین کا کنکشن ان لوگوں سے جوڑا گیا معلوم نہیں۔ اٹارنی جنرل بیان حلفی کا جائزہ لیکر جواب دیں۔ کیا ایف آئی اے نے افتخار مرزا کے کنکشنز کا کھوج لگایا؟۔ عدلیہ کیخلاف ایسا بیان کوئی اپنے طور پر نہیں دے سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ابھی کیونکہ توہین عدالت کا کیس ہے اس لئے اس حوالے سے زیادہ تفصیلات معلوم نہیں۔ جس پر عدالت نے مزید سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔