ایک طرف سعودی عرب ہے جہاں کبھی مکمل اسلامی نظام رائج تھا لیکن اب وہاں دیگر آزادیوں کے ساتھ ساتھ ماڈلنگ کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔دوسری جانب ترکی ہے جس کا ماضی غیر مسلموں سے یکساں تھا جہاں لبرلزم کا راج تھا لیکن اب وہاں کہ حالات بھی یکسر تبدیل ہورہے ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیئے۔ ترکی کی اعلیٰ عدالت کونسل آف اسٹیٹ کی جانب سے آیا صوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ آتے ہی ترک صدر نے صدارتی فرمان پر دستخط کردیئے۔صدارتی حکم کے بعد آیا صوفیا کی میوزیم کی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور اس کا کنٹرول محکمہ مذہبی امور نے سنبھال لیا ہے۔واضح رہے کہ24 نومبر 1934ء کو حکومتی فیصلے کے تحت اس عمارت کی مسجد کی حیثیت ختم کرکے میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا۔1453استنبول میں قائم یہ عمارت چھٹی صدی میں بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں بنائی گئی تھی اور تقریباً 1000 سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر تھی۔ سلطنت ِ عثمانیہ میں اسے ایک بار پھر مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا،جبکہ تقریبا پونے پانچ سو سال بعد 1934 میں اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ورلڈ کونسل آف چرچز نے ترکی میں آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ چرچز کی نمائندہ تنظیم نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ورلڈ کونسل آف چرچز کا کہنا ہے کہ 1934 میں مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل ہونے کے بعد سے آیا صوفیا تمام مذاہب اور قوموں کے لیے رواداری کی علامت رہی ہے لیکن اب اِس فیصلے سے تقسیم اور فاصلے بڑھنے کا خدشہ ہے۔دوسری جانب مسلمانوں کے قتل عام پر آنکھوں پر پٹی باندھے رکھنے والی اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر میدان میں نظر آرہی ہے۔ آیا صوفیا کی عمارت کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ یونیسکو نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل نہ کرے۔خدا جانے یہ تنظیمیں ،اقوام عالم اور دنیا بھر کے سیکیولر تب کہاں تھے جب فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا اور انکے قبلہ اول پر قبضہ کیا جارہا تھا،خدا جانے یہ لوگ تب کہاں تھے جب مسلمانوں کو فلسطین میں انکے مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکا جارہا تھا،خدا جانے یہ سرخ جھنڈوں کے سایہ تلے متحد لوگ تب کہاں تھے جب بوسنیا میں ایک ہی ہفتے میں آٹھ ہزار افراد کو صرف اسلیئے قتل کردیا گیا کیوں کہ وہ مسلمان تھے ،آج چلا چلا کے ترک صدر پر لفظی نشتر برسانے والے تب بھی نظر نہ آئے جب بھارت میں ہندو انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کی جانب سے بابری مسجد ڈھا دی گئی۔دنیا بھر میں آج بھی کئی مساجد پر تالے پڑے ہیں،دنیا کے کونے کونے میں آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کیلئے انکی مذہبی رسومات اور فرائض کی ادائیگی ناممکن ہے۔اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے۔اللہ رب العزت کلام مقدس میں اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ''مت برا کہو انہیں جنہیں یہ (کفار)پکارتے ہیں ''لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان کسی کی عبادت گاہ کو ختم کردیں؟آیا صوفیا کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے اس کی عمارت 84 سال سے عجائب گھر کے طور پر استعمال ہورہی ہے، اب بھی مسجد میں تبدیل ہونے کے بعد اسے غیر مسلموں کیلئے بند نہیں کیا گیا بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آیا صوفیا تمام مذاہب کے لوگوں کیلئے کھلی ہے۔اس سے یہ تاثر دینا کہ ترکی اب غیر مسلموں کیلئے محفوظ ملک نہیں رہا یا ترکی میں غیر مسلموں کو عبادت کی کھلی اجازت نہیں تو ایسا بھی بالکل نہیں یہ تاثر بھی مکمل طور پر غلط ہے دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ ترکی میں مسیحی برادری کی عبادت کیلئے 400 سے زائد چرچ موجود ہیں۔آیا صوفیا میں تو باجماعت نماز کا آغاز ہوگیا لیکن اب مسلمانوں کو دنیا بھر میں کفار کے تسلط میں موجود مساجد کو آزاد کرانے کیلئے بھی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔مسلمانوں کو قبلہ اول آج بھی اسرائیلی دہشتگردوں کے قبضے میں۔آیا صوفیا کہ معاملے پر بڑھ چڑھ کے بولنے والے دنیا کے نام نہاد امن پسند و منصف اس پر کبھی آواز بلند نہیں کریں گے،رجب طیب اردوان کی ریاست میں اس اقدام کے بعد مسلمانوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آیا صوفیا کی مسجد کے طور پر بحالی اور اس میں باجماعت نماز کا آغاز مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جانب پہلا قدم ہے۔محض ایسے بیانات دے دینے سے یا ترکی ڈرامہ ارتغرل دیکھنے اور اس کے کرداروں کا دیوانہ ہوجانے سے مسجد اقصیٰ آزاد نہیں ہوجائے گی۔مسلمانوں کو اپنی کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلئے قرآن و تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔آج کے مسلمانوں میں اگر تو عقابی روح بیدار ہوگئی تو یقینی طور پر ترک عدالت و صدر کا اقدام مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا ہم آج بھی باتوں تک اور بیانات تک محدود رہے اور آپس میں متحد نہ ہوئے تو مسجد اقصیٰ تو دور خدا نہ کرنے کہیں بیت اللہ کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔