چند روز قبل خاندان کے افراد کے ساتھ کیبل کمرشل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔پہلے دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی بعدازاں کچھ خوف طاری ہوا کیونکہ اس کا آغاز پرسرار آواز سے ہوا اور دھواں دار جملوں نے انٹری دی کہ ماضی،حال،مستقبل جانیے، کیا ہے پریشانی۔ کب تک رہے گی، اس کا حل کیا ہے؟۔ پھر بتائیں گے آج ہی کال ملائیں۔ہمارے عامل بابا سے ملیں۔ بنگال کا چیختا چنگھاڑتا ہوا جادو۔ بابا جی کا دعوی میرے آگے جادو ٹونہ بولتا ہے۔ ماسٹر آف دی بلیک میجک۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں۔ہر کام گارنٹی کے ساتھ، صرف ایک رات کے عملیات سے آپکی پریشانی کا خاتمہ مثلاً بیرون ملک سفر میں رکاوٹ، شوہر کو سیدھے راستے پر لانا، سوتن سے چھٹکارا۔ ساس سسر کو تابع کرنا،پسند کی شادی، محبوب مچھلی کی طرح تڑپے گا، اولاد کا نہ ہونا، دشمن کو زیر کرنا۔ ہمارا علم دنیا کے ہر کونے میں اثر کرتا ہے جہاں کسی کا علم نہیں جاتا۔ کمرشل کے ختم ہوتے ہی یکدم ہم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور بس پھر کیا، قہقہوں کی برسات شروع ہوگئی۔ اُس سے اگلے دن لوئر مال کی جانب گزرنا ہوا۔ پورے راستے دیواروں، کھمبوں پر عاملوں کے اشتہارات کی بھرمار تھی۔ جسے دیکھ کر گِھن سی محسوس ہوئی گویا کہ ہم جادوگر سامری کے دور میں آگئے ہوں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد، گوجرانوالہ،فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، ساہیوال جیسے کئی بڑے شہروں کے پْلوں کے نیچے ایسے اشتہارات جابجا موجود ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی شہروں میں اس پائے کے عاملین موجود ہیں جو اپنے عملیات اور جنتر منتر کے زور پر نفرت کو محبت اور محبت کو نفرت میں بدل دیتے ہیں۔ کاروبار کی بندش ان کے لیے معمولی کھیل ہے اور طلاقیں دلوانا ان کے قبضے میں ہے !جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ کالی شکتیوں کے وہ مالک ہیں جیسے ہنومان، کھیترپال، بھیرو، ناگ دیوتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کالے جادو نے آکٹوپس کی طرح ہمارے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔ کچھ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے ہتھے بآسانی چڑھ جاتے ہیں۔ ان کی شعبدہ بازی سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ بَلی چڑھانے کی غرض سے نومولود بچوں تک کو طاغوتی راہوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔سرگودھا کا دلخراش واقعہ کون بھول سکتا ہے۔جعلی پیرنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی مریدوں کو نشہ آور اشیاء پلاکر ان کو خنجروں اور ڈنڈوں کے وار سے موت کے گھاٹ اتار دیا اوران کے اعضا بھی کاٹ دیئے گئے۔ آئے روز ایسے واقعات اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں۔ پھر بھی جعلی پیروں، بابوں کے آستانوں پر کیوں جاتے ہیں۔ کچھ توہم پرست خواتین سسرال کے طعنوں سے تنگ آ کر عامل کے پاس جاتی ہیں اور اکثر اپنی عزت تک گنوا دیتی ہیں۔ آپ کو قصور کا ڈھونگی بابا تو یاد ہوگا جو لڑکوں کو نفرت سے لاتیں مارتا تھا اور لڑکیوں کو بڑے چاؤ سے جوہڑ میں غسل کرواتا تھا۔ بہت سارے جعلی پیر اپنے آپ کو پہنچا ہوا ثابت کرنے کے چکر میں سنکھیا، نیلا تھوتھا اور زہریلی بوٹیوں سے تعویز لکھتے ہیں جس کو پانی میں گھول کر متعلقہ شخص کو پلانے سے اس کی فوراً موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں تعویز لکھنے والا اور اس کو معاوضہ دینے والا دونوں ہی قابلِ سزا ہیں۔ ان ڈھونگیوں کے ٹولے میں کہیں ٹافیوں والی سرکار ہے تو کہیں دلہن سرکار۔
آجکل ''روحانی ڈیجیٹل کرنٹ'' والے عاملوں کا سوشل میڈیا پر مضحکہ خیز چرچا ہے۔ جب سب کے سب عوام ان کا تمسخر اڑاتے ہیں سمجھ نہیں آتا پھر اس فتنہ کی کون حوصلہ افزائی کرتا ہے؟.بلاشبہ ایسے لوگوں کا روحانی فیض سے کوئی تعلق نہیں۔ قارئین یاد رکھئیے کہ کالے علم والوں اور جادوگروں کی چوکھٹ پر اپنی حاجات لے کر جانے والے اور پھر ان کے بتائے ہوئے مکروہ طریقوں پر عمل کرنے والے اپنے آپ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں۔ جادو کی حقیقت کے بارے میں مختلف اشخاص مختلف ادوار میں اس کا دعوی کرتے آئے ہیں۔ تعویز کا رواج عموماً دور جاہلیت خصوصاً بت پرست اقوام سے چلا آ رہا ہے اور جو لوگ جادو کے علم کا انکار کرتے ہیں انہیں شاید قرآن مجید فرقانِ حمید میں موجود بیشمار واقعات کا علم نہیں۔ فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جادوگروں کو مات دی۔حضرت سلیمان علیہ السّلام جادوگر جنات پر حکومت کیا کرتے تھے۔ معوذتین(فلق و ناس) سورتوں کے پڑھنے کا حکم بھی جادوگر و جادو کے شر سے بچنے کے لیے دیا گیا ہے۔ قرآن میں سورۃ طہ آیت 69 میں حاکمِ کائنات نے جادوگروں کو وعید سنا کر مہر ثبت کر دی'' جادوگر جہاں بھی جائے کامیاب نہیں ہوتا''. اب ذہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ اگر جادو برحق ہے اور عاملوں، جادو کا توڑ کرنے والوں کے پاس جانا مکروہ اور کالا علم کروانا کفر ہے تو ایسے میں حسد اور نظر بد سے بھرپور معاشرے میں کیسے گزارا کیا جائے؟!.اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہوتے ہوئے جادو کیسے کارگر ہو سکتا ہے؟