افغان انتظامیہ کے پاس اب بھی خونریزی سے بچنے کا موقع ہے

افغان طالبان کی جانب سے افغانستان کے بیشتر علاقوں کے بعد چمن سے متصل باب دوستی کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے، جس کے بعد پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد سیل کردی گئی اور سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ گزشتہ رات طالبان نے افغانستان کے سرحدی شہر سپن بولدک پاک افغان سرحد کے قریب حملہ کیا تھا۔ افغان فورسز کے پیچھے ہٹنے کے بعد درجنوں طالبان پاک افغان سرحد کے باب دوستی پر پہنچے اور مرکزی دروازے پر اپنا پرچم لہرا دیا۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری بیان میں بھی اس کی تصدیق کردی گئی ہے۔ 
نائن الیون کے بعد امریکہ اور اتحادیوں کی یورش کے باعث افغانستان بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ امریکہ طالبان براہِ راست مذاکرات امن معاہدے پر ختم ہوئے تو افغانستان میں امن کی امید پیدا ہوئی۔ خطے کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہونے کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا دارومدار بھی شورش زدہ پڑوسی ملک میں امن کے قیام پر ہے مگر اب حالات کسی اور طرف کروٹ لیتے نظر آ رہے ہیں‘ افغانستان میں امن کی بحالی کے امکانات معدوم ہونے لگے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ 29 فروری 2020 ء کو ہوا جس کی افغان انتظامیہ کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی تھی۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمدللہ محب امریکہ طالبان مذاکرات اور بعدازاں امن معاہدے کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ امریکہ اور طالبان کو مذاکرات پر پاکستان نے آمادہ کیا تھا جبکہ حمداللہ محب پاکستان کیخلاف آج بھی بدزبانی کر رہے ہیں۔ امن معاہدے پر عمل کیلئے افغان حکمرانوں کا تعاون ضروری تھا۔ وہ تو نہ صرف معاہدے کی شدید مخالفت کرتے رہے بلکہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر حربہ آزماتے اور سازشیں بھی کرتے رہے۔ امریکہ کا آج بھی افغانستان میں واضح عمل دخل ہے۔ امن معاہدے پر عمل کو اسی نے یقینی بنایا ہوتا تو آج حالات اس انارکی کو نہ پہنچتے۔ طالبان تعاون پر تیار تھے۔ ایک سیاسی سیٹ اپ آسانی سے تشکیل پا سکتا تھا۔ اب حالات پر قابو پانا مشکل نظر آتا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ 95 فیصد انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ 100 فیصد مکمل ہونے پر افغانستان میں کیا صورتحال ہو گی اس کا اندازہ  وہاں برپا شورش سے کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے مقبوضات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 85 فیصد علاقوں پر وہ پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں۔ اُدھر صدر اشرف غنی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ طالبان کی کمر جلد توڑ دی جائیگی ، ان سے زیر قبضہ علاقے واپس لے لیں گے۔ اشرف غنی کی فوج کی حکمت عملی اتنی ہی کامیاب ہوتی تو آج طالبان وسیع علاقوں اور شہروں شہروں قبضہ نہ کر لیتے۔ حالات اب جس طرف جا رہے ہیں اس کا اندازہ برطانوی وزیر دفاع کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ بین ویلس نے کہا ہے کہ طالبان نے حکومت بنائی تو انکے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔ افغان انتظامیہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ رابطوں کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی فضائیہ کی مدد لی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ اشرف غنی حکومت کا تحفظ نہیں کر سکا تو بھارت کس باغ کی مولی ہے۔ اچھا ہے بھارتی فوج اشرف غنی کی مدد کو آئے اور افغانستان میں اپنا قبرستان بنوائے۔ 
بھارت افغانستان کی موجودہ صورتحال میں کودتاہے تو خطے میں صورتحال مزید کشیدہ ہو گی۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرتا رہا ہے جس میں اب کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ افغان انتظامیہ سے چھینی گئی پوسٹوں سے طالبان کو 3 ارب روپے کی پاکستانی کرنسی ملی ہے۔ یہ رقم پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کی جا رہی تھی۔ بھارت کتے کی دُم کی طرح ہے جو کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ وہ لاتوں کا بھوت ہے۔ اس کو مشرقی بارڈر پر حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی اسکے گیدڑ جاسوس اور ایجنٹ دھر لیے جاتے ہیں۔ اسکے باوجود پیسے کے زور پر اسکی بزدلانہ کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ گزشتہ روز داسوڈیم کی بس نالے میں گرنے سے 9 چینی ورکرز سمیت 13 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس حادثے میں دہشتگردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا جس میں بھارت ملوث ہو سکتا ہے۔ وہ پہلے بھی ایسی بھیانک کارروائیاں پاک چین تعلقات کو متاثر اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کر چکا ہے۔
اشرف غنی اقتدار بچانے کیلئے اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے حقائق کا ادراک کریں۔ رواں ہفتے دوحہ میں طالبان افغان وفد سے ملاقات کیلئے آمادہ ہیں۔ افغان مسئلے کے حل کا یہی ایک پرامن موقع ہے جس کا افغان انتظامیہ فائدہ اٹھا کر افغانستان میں مزید خونریزی کو روک سکتی ہے اور یہ اسکی طرف سے امن معاہدے کی مخالفت کا کفارہ بھی ہو سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن