مستقبل کا افغانستان اور دہشت گرد بھارت!!!

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار میں آنا ہے، وہ حکومت بنائیں گے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کو انہیں تسلیم بھی کرنا پڑے گا۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں طالبان پر ہیں اور طالبان قیادت بہت واضح خیالات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ مختلف ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت بھی کر رہے ہیں اور اپنا موقف بہت واضح اور دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ نہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے حامی ہیں نہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں۔ وہ دہائیوں کی جنگ کے بعد اپنے ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ افغان محکوم نہیں رہ سکتے۔ افغان طالبان ایک حقیقت ہیں اور دنیا انہیں اہمیت بھی دے رہی ہے۔
برطانیہ نے بھی افغانستان میں ممکنہ طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ طالبان کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یقینی طور پر برطانیہ کی رضامندی سے دنیا میں طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مثبت پیغام جائے گا۔ افغان طالبان نے برطانوی حکومت کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے "ترجمان طالبان نے کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی اصولوں کے پابند اور تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ ہماری سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہو گی نہ کسی کو  افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت دی جائے گی۔ ہم دنیا کو سرمایہ کاری کیاچھے مواقع فراہم کریں گے"۔ برطانیہ کی طرف سے طالبان کو تسلیم کرنے کے اعلان سے واضح ہو گیا ہے کہ عالمی برادری کے پاس طالبان کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کا امن بھی پرامن افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان افغانستان میں عوامی جذبات کے احترام کا پیغام آگے بڑھا رہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کا خواہشمند ہے۔افغان طالبان کمانڈر اور پاکستان سیکیورٹی حکام کے باب دوستی پر رابطے کے بعد باب دوستی کو دو روزہ بندش کے بعد پیدل آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ افغان طالبان کے باب دوستی اور افغان سرحدی ضلع اسپن بولدک پر قبضے کے بعد ضلعے کے دفتری امور بھی طالبان کے پاس آگئے ہیں۔ یوں طالبان کو ہرطرف سے حمایت اور ان کا مسلسل علاقوں پر قبضہ حاصل کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی منزل سے زیادہ دور نہیں ہے۔
 افغان امن کانفرنس اٹھارہ اور انیس جولائی کو اسلام آباد میں ہو رہی ہے اس کانفرنس میں افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کی شرکت کا امکان ہے۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے افغان قائدین کو دعوت نامے بھجوائے جا چکے ہیں۔
 پاکستان افغان مہاجرین کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جائیں پاکستان ان مہاجرین کا مزید بوجھ برداشت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں عوامی حمایت رکھنے والی حکومت کے قیام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کی واپسی اور ان کی دیکھ بھال عوامی حمایت رکھنے والی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ اس امن کانفرنس کے انعقاد سے پاکستان کی طرف سے خطے میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا پیغام بھی دنیا میں جائے گا۔ اس کانفرنس کی وجہ سے افغان قیادت کو بھی مل بیٹھنے اور مستقبل کی مشکلات سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ دنیا کو بھی یہ اندازہ ہو گا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کتنے مضبوط ہیں۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے امن تباہ کرنے کی سازشیں کرنے والے بھارت کی نیندیں بھی حرام ہوں گی۔ موجودہ صورت حال میں بھارت کا کردار نہایت منفی ہے۔ 
ایک طرف پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کام کر رہا ہے تو دوسری طرف بھارت پاکستان کا امن تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ پاکستان بھارت کی طرف سے دہشت گردی کو ریاستی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا معاملہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ پاکستان بھارتی سازشوں کے توڑ کے لیے کام کر رہا ہے۔ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کوششوں میں مصروف ہے۔
افغانستان میں بھارتی قونضل خانے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ بھارت اپنے قونضل خانوں کی آڑ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" اور افغانستان کی "این ڈی ایس" کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔بھارت اربوں روپے پاکستان میں امن و امان کو تباہ کرنے لیے خرچ کر رہا ہے۔ قندھار میں افغان این ڈی ایس کے ایک کرنل کے کمپاونڈ میں تین ارب روپے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے استعمال ہونا تھی تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے پاکستان میں اتحاد کی فضا کو خراب کیا جا سکے۔ بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور مالی معاونت کے واضح ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ دہشت گردوں کے سرپرست کی حیثیت سے سخت برتاؤ کرنا نہایت ضروری ہے۔ بھارت کی ایسی کارروائیوں کو نظر انداز کرنا دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی وقوت سے بھارتی عزائم کو سخت نقصان پہنچا ہے، طالبان کی قوت میں اضافے سے بھارت کے خواب چکنا چور ہو رہے کیونکہ طالبان نے بھارتی سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...