کالم کو آگے بڑھانے سے قبل عرض کرتا چلوں کہ فوجی ڈکٹیٹروں کے متعلق لکھتے لکھتے دیگر بہت سے اہم امورزیر بحث نہ لائے جاسکے ۔مگر کسی نہ کسی دیگر جریدے یاروز نامے میں شائع ہوتے رہے۔دوسری بات یہ کہ ان کالموں میں کئی جگہ آپ کو واقعات کی ایسی تکرار نظر کو چبھے گی جوسالہا سال پیشتر شائع ہوچکے ہیں۔ میں”تکرار“کی اس ادھیڑ بن میں تھا کہ عید مبارک کہتے ہوئے سید افضل حیدر صاحب سے اس مسئلے پر بات ہوگئی ۔انہوں نے تکرار کو حسن جانا کہ اس سے قاری کو وہ و اقعات بھی یاد آجاتے ہیں جو وہ بھول چکا ہو۔ان کے نزدیک کسی اہم بات کو تکرار کے ساتھ کہنا کسی وقت ازبس ضروری ہوتا ہے ۔"
تکرارکا حسن"انہوں نے جس طرح بیان کیاوہ بجائے خود ایک کالم بلکہ طویل کالم کا محتاج ہے جسے پھر کسی وقت کے لئے اٹھارکھتے ہیں ۔دیگر فوجی ڈکٹیٹروں کی نسبت ضیاءالحق کی داستانیں بہت دلچسپ اور قاہرانہ ہیں ،تاریخ نے ایساآمرنہ دیکھاہوگا جس نے ملکی عدلیہ کے ذریعے ایک وزیر اعظم کوپھانسی کے پھندے پر چڑھایا ہو، ہزاروں سیاسی کارکنوں ،صحافیوں اور وکلاءکو اس دورجدید میں بھی زمانہ ءقدیم کی طرح کوڑے مروائے ہوں ،ہزاروں کارکنوں کو ایسے عقوبت خانوں میں رکھا ہوجہاں سورج کی کرنیں بھی نہ پہنچ سکتی ہوںجس کیخلاف سیاسی کارکن احتجاجی طورپر جل کرشہید ہوگئے ہوں۔چلیے اب پھر سنٹرل جیل ساہیوال چلتے ہیں ۔ایک روز سپرنٹنڈنٹ جیل کیپٹن (ر)سرفراز مفتی نے جوایک شفیق اورشریف انسان تھا اجازت دے دی کہ سب بارکوں سے ہم لوگ”چھ چکی“کے احاطے میں نماز جمعہ اکٹھے اداکرسکتے ہیں اوریوں فیصل آباد کے سابق وزیرسعید اعوان،سابق صوبائی وزیر چوہدری بدردین ،محبوب خاں ،لاہور کے انورڈھولن ، پروفیسر استقلال ،شیخوپورہ کے ملک عارف اعوان (سابق ایم این اے)اوردیگر بہت سے احباب جمع ہوگئے ۔ دوپہر کے کھانے پر سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ اگست1983ءکی بات ہے تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)کی تحریک پنجاب میں اتنی طاقت حاصل نہ کرسکی یہی حال پختو نخواہ اوربلوچستان کاتھا ۔تاہم سندھ میں تحریک نے بہت شدت سے خود کومنوایا۔غلام مصطفے جتوئی کی قیادت میں چھوٹے پیمانے پرہی سہی مگر مسلح جدوجہد شروع ہوئی ۔ایک سیاسی کارکن نذیر عباسی کوشہید کردیاگیا۔جوتاریک راہوں میں مارے گئے ان کی گنتی الگ ہے ۔لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پیپلز پارٹی کے فاروق لغاری ، میاں احسان الحق ، چوہدری انورعزیزعوامی نیشنل پارٹی کے پنجاب کے صدر راﺅ مہروز اختر ،جنرل سیکرٹری فاروق قریشی اور تحریک استقلال کے خورشید قصوری ، ملک حامد سرفراز ،اعتراز احسن اور میں روزانہ شام کو چہل قدمی کے موقع پراکٹھے ہوتے ۔مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں مگر اب کئی دنوں سے موضوع بحث سندھ میں ایم آر ڈی کی مسلح تحریک ہوتا۔بہت اندازے لگائے جاتے اور اگلے دن کے لئے بقیہ بحث ملتوی کردی جاتی ۔اسی اثناءمیں ایک روز مجھے جیل حکام نے کہا کہ آج تمہاری رہائی ہے اس لئے اپنا سامان لے کر جیل کی ڈیوڑھی میں آجاﺅ۔ ڈیوڑھی میں پہنچا تو فاروق لغاری ،راﺅ مہروز اختر ،فاروق قریشی اور اعجاز شاہ وغیرہ بھی سامان لئے موجود تھے ۔مگر یہ رہائی نہیں کوٹ لکھپت جیل سے ”چالی“ تھی(جیل کی زبان میں ایک جیل سے دوسری جیل منتقلی(لیکن کہاں ؟یہ کسی کومعلوم نہ تھا۔پولیس وین اپنی گارد کے ہمراہ ہمیں لے کرروانہ ہوگئی ۔ایک نیک دل پولیس حوالدار نے راستے میں اپنی گرہ سے ہمیں چائے وغیرہ پلائی مگر آنے والی منزل کی بابت کچھ نہ بتایا ۔ ہمارے ذہنوں میں پنجاب کی بدترین جیلیں ،سنٹرل جیل ساہیوال،سنٹرل جیل ملتان ،سنٹرل جیل بہاولپور اور سنٹرل جیل ڈیرہ غازی خان کا تصور ابھرتا تو محسوس ہوتا کہ ایک اورجیل کا سامنا تھا ہمیں ۔زیادہ ترخیال یہی تھا کہ فاروق لغاری کی وجہ سے ان کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خاں جیل آخری منزل ہوگی۔تقریبا چھ گھنٹے کے سفر کے بعد پولیس وین ساہیوال شہر میں داخل ہوئی تو اتنا اطمینان ضرور ہوگیا کہ ہمیں اب بقیہ جیل ساہیوال سنٹر میں گذارنا ہوگی۔ساہیوال جیل ،ایک جیل کے اندردو جیلیں ہیں ،ایک سنٹرل جیل اور ایک ڈسٹرکٹ جیل ۔ اس کاشمار پنجاب کی سخت گیر اور بدنام جیلوں میں ہوتا ہے ۔اس سے قبل مختلف عقوبت خانوں میں اس کے افسانے سن چکے تھے۔یہاں کبھی جب آغاشورش وغیرہ مقید ہواکرتے تھے تو جہانگیر ہوتیانہ نام کا ایک سپرنٹنڈنٹ تھا اتنا سخت گیر کہ پناہ بخدا ایک بار معمول کے مطابق جیل کے دورے پر گیا تو ایک بیل اپنی موج میں آوازیں نکال رہا تھا۔وہیں کھڑے کھڑے اس بیل کو کوڑے مارنے کاحکم دیااور بقیہ دورہ مکمل کیا۔کسی قیدی کو بیڑیاں لگوانا توگویا اس کا مشغلہ تھا۔ایسے ہی افسانے ذہن میں دہراتے ہوئے جیل میں داخل ہوئے تو ایک پرانے دوست ملک پرویز اقبال (مرحوم) نے جو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل تھا ،اس نے ڈیوڑھی میں حسب ضابطہ ہمیں ”وصول“کیا اور پولیس کورسید دے کرفارغ کردیا۔جیل کارجسٹر منگوایا گیا ۔اس میں ہم سب کا نام وپتہ ،تاریخ پیدائش ،صحت کی ظاہری حالت اور تعلیم کا اندراج کیاگیاہم سب اگرچہ پڑھے لکھے تھے مگر ہماری تعلیم کے خانے میں "خواندہ"ہی لکھا گیا اور دستخط کی بجائے انگوٹھے لگوائے گئے ۔ہمیں مختلف بارکوں میں منتقل کرنے سے قبل ملک پرویز اقبال نے مجھے کہاکہ میں تمہاری گنتی فاروق لغاری کے ساتھ ڈال رہا ہوں تاکہ آرام سے جیل کاٹ سکو۔میں نے کہا کہ خدارا اس”بور“آدمی کے ساتھ میری گنتی نہ ڈالنا۔میں تین ماہ تک ایک ہی بیرک میں اسکے ساتھ رہا ہوں۔ ماشاءاللہ ”بوریت“سے بھرپور شہکار ہے ۔ دوستوں کے ساتھ ہنسنا کھیلنا اور محفل آرائی کرکے جیل کی کلفتیں کم کرناتو شائد اس کی لغت میں ہی نہیں ۔اسکے صرف دومشاغل ہیںوظائف اور کتاب اور بس ۔ دروازے پر ہی سپرنٹنڈنٹ جیل کانام پڑھا ”کیپٹن سرفراز مفتی“آسٹریلیا سے تعلیم یافتہ ۔دل کو تسلی ہوئی کہ موضوع بحث یہی تھا کہ ضیاءالحق ملک کی جان کس طرح چھوڑے گا۔ ضیاءالحق کے خلاف جدوجہد کی داستان ابھی جاری ہے۔