کل اتوار کو پنجاب اسمبلی کی 20 خالی نشستوں پر منعقد ہونیوالے ضمنی انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی قیادتیں اپنے اپنے امیدواروں کے ساتھ اپنے اپنے جس بیانیہ کو لے کر میدان میں اتری ہیں‘ وہ بیانیے تو خود انہی کے ہاتھوں سپردخاک ہو چکے ہیں اس لئے کل کے انتخابی نتائج کو کسی کے بیانیے کی فتح یا شکست سے تعبیر کرنا ہرگز مناسب نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) نے ”ووٹ کو عزت دو“ والا بیانیہ اپنی صفوں میں لوٹوں کو عزت دے کر خود ہی غارت کر دیا ہے اور اس سیاست پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے کہ اپنے فائدے اور اقتدار کی خاطر چور کو بھی سادھ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ راندہ¿ درگاہ عوام کی اہمیت اور حیثیت تو بس پولنگ والے دن اسکے بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالنے تک ہی ہوتی ہے۔ اسکے بعد ووٹر کو واپس اسکے گھر چھوڑنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ تو بھائی صاحب! آپ کس کے ووٹ کو عزت دلوا رہے ہیں؟ جسے آپ خود اپنے اقتدار کیلئے کروڑوں کے عوض خرید کر بیلٹ بکس تک لے جاتے ہیں اور اپنے حق میں اس کا ووٹ یقینی بناتے ہیں۔ یہ ”عزت دار“ لوگ پھر آپکی صفوں میں شامل ہو کر آپ کا قیمتی اثاثہ بن جاتے ہیں مگر اس اثاثے کو تو کسی سے بھی اپنے منہ مانگے دام لگوانے کا فن بخوبی آتا ہے۔ پھر انہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی کا اقتدار نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے یا سراسر مفاداتی بنیادوں پر۔ اقتدار انکی منزل مراد ہوتی ہے اور اس منزلِ مراد میں ہمہ وقت انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتا ہے۔ اگر ووٹ کو عزت دو والے بیانیہ کی بھی منزلِ مراد یہی ہے تو جناب ہم باز آئے محبت سے، اٹھا لو پاندان اپنا۔
جناب! اس لوٹاگردی میں تو سارے ایک ہی حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔ جس بھی پارٹی اور اسکے پارٹی قائد کو دوسری پارٹی کے بندے کھسکا کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے یا اپنے اقتدار کو بچانے کی سہولت ملتی نظر آتی ہے وہ ہر قیمت پر یہ عمل کر گزرتا ہے۔ پہلے تو آئین و قانون میں لوٹا گردی کے سدباب کی کوئی شق ہی موجود نہیں تھی۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت دفعہ 63 میں شق اے کا اضافہ کرکے اپنی پارٹی کے کسی منحرف رکن کو کان سے کھینچ کر پارٹی سے باہر نکالنے کا اختیار پارٹی صدر کو دیا گیا مگر یہ اختیار اس وقت ہی استعمال ہو سکتا تھا جب منحرف رکن اپنی پارٹی کے فیصلہ کیخلاف ووٹ کا حق استعمال کرلیتا۔ گویا پوری عمارت کو گرانے کا اختیار منحرف رکن کے پاس ہی رہتا ہے۔ بے شک اسکے بعد وہ خود بھی اپنی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جاتا ہے جبکہ یہ چکائی گئی قیمت بھی اس کیلئے نعمت غیرمترقبہ بن جاتی کہ جس کے حق میں ووٹ ڈال کر وہ اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوا وہ اسی پارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں اتر کر دوبارہ اسمبلی میں پہنچ جاتا۔
اس بدقماشی کو روکنے کا جو راستہ اب سپریم کورٹ نے دفعہ 63۔اے کی وضاحت کیلئے دائر ریفرنس کے فیصلہ کے ذریعے سجھایا ہے‘ اگر فی الواقع ووٹ کو عزت دلوانی ہے تو تمام سیاسی قیادتوں کو باہم متفق ہو کر اس راستے کو اختیار کرنا ہوگا اور اپنی اپنی پارٹی کے ماتھے پر یہ بینر لگانا ہوگا کہ یہاں کسی لوٹے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسکے بعد دیکھیئے ہمارا سیاسی کلچر کیسے تبدیل ہوتا ہے۔
جب میاں نوازشریف جنرل مشرف کی ودیعت کی گئی جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آئے اور اپنی پارٹی کی تنظیم نو کا کام شروع کیا تو انکے آزمائش کے دنوں والے ساتھیوں نے دانشوروں کے ساتھ بھی مشاورت کے دروازے کھولے۔ اسی حوالے سے ایک روز خواجہ سعد رفیق میرے آفس تشریف لائے تو میں نے انہیں دوٹوک الفاظ میں یہی باور کرایا کہ جب تک ”الیکٹ ایبلز“ اور وفاداریاں تبدیل کرنیوالے سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بنے رہیں گے‘ آپ ہمارے سیاسی کلچر میں کسی تبدیلی کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ آپ سب سے پہلے اپنی پارٹی کے اندر یہ روایت پیدا کریں کہ اس پارٹی میں کسی لوٹے کی ہرگز گنجائش نہیں تو آپکی پارٹی کی نظریاتی بنیاد خود ہی مستحکم ہو جائیگی۔ خواجہ سعدرفیق نے میرے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ اگر آئندہ کسی لوٹے کی انکی پارٹی میں قبولیت ہوگی تو پھر اس پارٹی میں وہ ان کا آخری دن ہوگا۔ جناب! اس وعدے پر تو اب تک تین عام انتخابات والی قیادتیں ٹوٹ چکی ہیں جس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اندر لوٹوں کی بہاریں ہی لگی رہیں اور اب پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں کے ضمنی انتخابات میں تو لوٹوں کو قبول نہ کرنیوالی اصولی سیاست کی لٹیا ہی ڈبو دی گئی ہے۔ جب سیاسی پارٹیوں میں کلچر ہی لوٹوں کی آﺅ بھگت والا بنا دیا گیا ہو تو نقار خانے میں خواجہ سعدرفیق جیسے طوطی کی آواز پر بھلا کون کان دھرے گا اور خواجہ صاحب بھی اپنے وعدے کی پاسداری کیلئے ایسے ہی کیوں خجل خراب ہوتے پھریں۔ سو اسی ووٹ کو عزت دو جو آپ کو اقتدار کی عزت دلوانے میں معاون بن سکتا ہو۔ اگر یہ چلن کسی ایک پارٹی کا ہوتا تو ہم معترض ہو سکتے تھے مگر یہاں تو ہر پارٹی میں لوٹوں کی قبولیت کی وافر گنجائش موجود ہے بلکہ لوٹوں کو اپنی جانب کھینچنے میں بھی مقابلہ بازی ہوجاتی ہے تو ووٹ کو عزت دو والا بیانیہ شرمسار ہوکر خود کو کسی کونے کھدرے میں چھپانے کی کوشش ہی کریگا۔ بی بی مریم نواز کو مبارک ہو کہ انہوں نے ضمنی انتخابات کی مہم کے دوران پورا زور لگا کر ووٹ کو عزت دو والے بیانیے کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔
اب آتے ہیں پی ٹی آئی کے بیرونی سازش والے بیانیے کی جانب جو وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہی منظرعام پر آیا اور عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد یہ بیانیہ اتنا ”خطرے ناک“ ہوا کہ مخالف سیاست دانوں کے علاوہ اس بیانیے نے قومی ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں پر گند اچھالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور تو اور‘ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو بھی اسی بیانیے میں جھونکنے کی مذموم کوششیں کی گئیں اور صدر‘ وزیراعظم اور سپیکر کی نشست پر بیٹھ کر آئین و قانون کے تقاضوں کے حوالے سے ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑی گئیں اور اقدامات اٹھائے گئے کہ آئین و قانون کی کتابیں خود سراپا سوال بن گئیں کہ ان کا قصور کیا ہے جو انکی اس بھونڈے انداز میں بھد اڑائی جارہی ہے۔ حکمران طبقات کی ایسی سرکشیوں اور آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ کھلواڑ کا تفصیلی تذکرہ میری کتاب ”آئین کا مقدمہ“ میں موجود ہے جو قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل کے زیراہتمام حال ہی میں علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کی ہے۔ آئین و قانون کے طالب علم کی حیثیت سے اس سارے معاملے میں میری یہی رائے رہی ہے جس کا میں ان سطور میں اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ پی ٹی آئی حکومت کے اکابرین بشمول صدر‘ وزیراعظم‘ سپیکر، ڈپٹی سپیکر‘ وزیر قانون اور پنجاب کی سطح پر گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے بیرونی سازش والے بیانیے کی آڑ میں آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس لئے اس چلن کو پھیلنے سے روکنے کیلئے تمام متعلقین پر آئین کی دفعہ 6 کی عملداری ہونی چاہیے۔ اب سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ صادر کرتے ہوئے متعلقہ تمام شخصیات کو آئین کے ساتھ فراڈ کرنے کا باقاعدہ مجرم قرار دے کر انکے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کا حکومت اور پارلیمنٹ کو راستہ دکھایا ہے تو اسکے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے بیرونی سازش والے بیانیہ کی بھی تدفین ہوگئی ہے۔ اب یہ پارلیمنٹ کی ساکھ کا سوال ہے کہ وہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم کے ٹھوس بیانیے پر آئین و قانون کی پاسداری اور عدالتی فیصلوں کی حرمت کے تحفظ کیلئے کیا عملی اقدام اٹھاتی ہے۔ یہ کیس اب کسی تحقیق و تفتیش کا نہیں بلکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق کارروائی عمل میں لانے کا کیس بن چکا ہے اور یقیناً آئین کے سرکشوں کا راستہ آئین میں دیئے گئے طریق کار کے مطابق ٹھوس اور باعمل کارروائی سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اب اس میں اِدھر اُدھر کی بات کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
بیانیوں کی رسوائی
Jul 16, 2022