مْون سْون کی حالیہ بارشوں سے صوبہ سندھ میں چھبیس اور کراچی شہر میں چودہ افراد جان سے گئے صوبائی حکومت روایتی طور پر بارش ایمرجنسی نافذ کر کے اپنے تئیں ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو گئی۔ امسال ہونے والی بارشوں نے تو کراچی کے پوش علاقوں مثلا ڈی ایچ اے کو بھی ڈبو دیا۔ اونگی ٹاؤن، کورنگی، آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ فیصل، یونیورسٹی روڈ، نیپا چورنگی، اور قیوم آباد مکمل یا جزوی طور پر گھنٹوں ڈوبے رہے۔حال ہی میں دی اکانومسٹ کی جانب سے شائع کردہ دنیا بھر کے شہروں سے متعلق فہرست میں کراچی کو دنیا کے دس بدترین شہروں میں شمار کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر کراچی کے ہمنوا دیگر بدترین شہر خانہ جنگی کا شکار شام کا شہر دمشق اور لیبیا کا طرابلس شامل ہیں۔ کیا کراچی اتنا لاوارث ہو گیا کہ خانہ جنگی سے تباہ حال شہروں کی فہرست میں جا شامل ہوا؟پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق، کراچی پاکستان بھر سے جمع کیے گئے ٹیکس کا سینتالیس فیصد ادا کرتا ہے۔ تقریبا نصف فیصدی ٹیکس ادا کرنے والا
شہر ہر سال مون سون کے موسم میں لاچارگی کی ایک مثال بن جاتا ہے۔ معمولی سی بارش شہر کو مکمل یا جزوی طور پر ڈبو دیتی ہے۔ پانی گھروں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کاروباری نقصان اٹھاتا ہے۔
کسی بھی جدید شہر کے بنیادی ڈھانچے میں ویسٹ مینیجمنٹ اور سیورج سسٹم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اڑھائی کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر کراچی، یومیہ سولہ ہزار ٹن سے زائد کوڑا کرکٹ پیدا کرتا ہے۔ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا باقائدہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف شہر میں مختلف بیماریاں پھیلنے کا سبب بنتا ہے وہیں بارشوں کے موسم میں پانی کی نکاسی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ناصرف ایک جدید ویسٹ مینیجمنٹ کا ڈھانچہ بنایا جائے بلکہ اسے جدید سائنسی بنیادوں پر کارفرما کیا جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والا سولہ ہزار ٹن کوڑا کرکٹ کراچی کے لیے مسائل کی وجہ بننے کی بجائے ایک نعمت غیر مترقبہ بن سکتا ہے۔ مثلا انیس سو ستانوے میں اٹلی کے شہر کیپیلو نے زیرو ویسٹ پروگرام شروع کیا۔ آج پچیس سال بعد یہ پروگرام ناصرف خود کفیل ہے بلکہ جدید ریسائیکلنگ کی وجہ سے شہر کو منافع بھی کما کر دے رہا ہے۔
اسی طرح کراچی کا کوڑا جدید پراسیسنگ سے اس صنعتی شہر کی تواناء کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کوڑے سے میتھین گیس گیس بنانے کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ کے محکمہ توانائی کے مطابق کوڑے سے تواناء بنانے کے روایتی طریقے سے ساڑھے پانچ سو کلو واٹ ہاورس تواناء بناء بناء جاسکتی ہے۔ جبکہ ایک ٹن کوڑے سے بیس سے تیس ڈالر منافع کمایا جا سکتا ہے۔بارش سے پیدا ہونے والے کراچی کے مسائل کی دوسری وجہ نکاسء آب کا فرسودہ نظام ہے۔ اس شہر میں جہاں ایک طرف جدید نکاسء آب کا نظام نہیں بننے دیا گیا وہیں پانی کے قدرتی بہاؤ کے رستوں میں غیر قانونی تعمیرات کھڑی کر دی گئیں۔اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف مْون سْون کے موسم میں سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، وہیں دوسری جانب تیزی سے کم ہوتے میٹھے پانی کے زخائر بھی آلودہ ہو رہے ہیں۔ پینے کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے امسال مارچ کے مہینے میں بچوں سمیت سینکڑون باشدگانِ کراچی ہیضے کا شکار ہوئے اور اس مرض نے وباء صورت اختیار کر لی۔ یاد رہے کہ ماہرینِ صحت کے مطابق آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں ایک صحتمند شخص کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
شہر کے دیگر مسائل کی طرح نکاسء آب کا مسئلہ بھی بے رحمی کی حد تک کرپٹ اندازِ حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ نکاسء آب کے مسائل کو ایڈ ہاک بنیادوں پر دیکھتا ہے۔ اڑھائی کروڑ آبادی کا شہر طویل المدتی منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ شہر کی صرف ساٹھ فیصد آبادی کو سیورج سسٹم تک رساء حاصل ہے۔ جبکہ موجودہ سیورج سسٹم جگہ جگہ سے بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کئی جگہوں سے سیورج لائن کو غیر قانونی تعمیرات نے بلاک کر رکھا ہے۔
ایک نیم فعال سیورج سسٹم کے ساتھ ساتھ کھلے مین ہول بھی کراچی کا ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ایک تجزیاتی مطالعے کے مطابق اس وقت شہر میں تقریبا اڑھائی لاکھ کھلے مین ہول موجود ہیں۔ سڑکوں پر پھیلا ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ، ایک نیم فعال سیوری جسسٹم، اور اس پر مستزاد کھلے مین ہول - یہ ہیں مْون سْون میں کراچی کے ڈوبنے کے تین واضح اسباب۔ ہلکی سی بارش سڑکوں پر موجود کوڑے کو کھلے مین ہول کے زریعے سیورج لائن میں لے جاتی ہے اور کراچی وینس کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔