حکومتیں قوانین کا نفاذ نہ کریں تو عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے : چیف جسٹس 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں لاءاینڈ جسٹس کمشن کے زیراہتمام آبادی اور وسائل کے عنوان سے قومی کانفرنس کے دوسرے سیشن سے خطاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافے سے عدالتیں متاثر ہوتی ہیں، آبادی میں اضافے سے ایک جج کے پاس زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ کانفرنس کا مقصد گرے ایریاز کی اجتماعی دانش کے تحت نشاندہی کرنا ہے۔ فضول قسم کی مقدمہ بازی سے بھی عدالتیں متاثر ہوتی ہیں، شناختی کارڈ کے حصول اور ووٹر لسٹوں میں نام درستگی جیسے مقدمات بھی عدالتوں میں آتے ہیں۔ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے جو سفارشات اس کانفرنس میں مرتب کی جائیں اس پر لاءاینڈ جسٹس کمشن سے رپورٹ مانگی جائے۔ چیف جسٹس نے اختتامی سیشن سے خطاب میں کہا ہے کہ صحت اور تعلیم سمیت خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق پالیسیاں موجود ہیں جن سے حکومتیں بخوبی آگاہ ہیں۔ سندھ اور خیبر پی کے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی بھی ہو چکی ہے۔ اب مسئلہ متعلقہ حکومتوں کی جانب سے پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ کا ہے، حکومتیں اگر قوانین اور پالیسیوں کے نفاذ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو عدالتوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ صحت، تعلیم اور خود مختاری خواتین کے بنیادی حقوق ہیں۔ ملک کی بہتری کے لیے خواتین کو با اختیار بنانا ہوگا، خواتین کو اپنے بنیادی فیصلے لینے کے لیے آزادی ہونی چاہیے۔ آبادی، بچوں اور خواتین کے حوالے سے کچھ اعترافات کرتا ہوں۔ جسٹس عائشہ نے کہا اس کانفرنس کے انعقاد میں باصلاحیت خواتین کا غلبہ تھا، آبادی سے متعلق میرے آدھے تحفظات تو یہیں حل ہو گئے۔ ریاست اور معاشرے کے اندر اعلی عہدوں پر باصلاحیت خواتین موجود ہیں، جس مسئلے کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں خواتین بذات اس معاملے میں باصلاحیت ہیں۔ میں ایک ضعیف العمر پرانے خیالات رکھنے والی شخصیت کا مالک ہوں، عدالتیں نہ پالیسز بناتی ہیں یا قانون بناتی ہیں۔ عدالتیں قانون اور پالیسز پر عمل درآمد کیلئے ہدایات جاری کر سکتی ہیں۔ میں ہائیکورٹ تو نہیں ہوں، ہائیکورٹس اور ماتحت عدلیہ کے ججز میرے سامنے دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں۔ میں جانتا ہوں ججز کیا محسوس کرتے ہیں، تمام ججز قوانین کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اعلی تعلیم بنیادی حق نہیں لیکن اسے بنیادی حق کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن