نہایت اس کی حسینؓ ابتداءہے اسمعیلؑ

بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

محرم کی حرمت قدیم ہے۔ اس مقدس ومعتبر دن بابائے آدمؑ کی توبہ کو قبولیت کی قباءعطاءکی گئی۔ حضرت جبرئےل ؑ سمےت تمام ملائکہ کی پےدائش ،کرہ ارض کا پہلا دن ،زمےن پر بارش کا پہلا قطرہ،بےشتر انبےاءو رسل کو مصےبتوں اور تکلےفوں سے برےت اور اعلیٰ مراتب پرفائزہونا ےوم عاشورا کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے کی رواےات ملتی ہےں۔حضرت موسیٰ ؑ اور اُن کی قوم کو فرعون کی چےرہ دستےوں سے نجات اسی دن حاصل ہوئی۔حضرت آدم ؑ کی ولادت اور توبہ اسی مہےنہ مےں قبول فرمائی گئی۔ محرم الحرام کو عقیدت وتکریم میں سب سے بڑا درجہ نواسہ رسول کی عدیم المثال قربانی نے دیا۔ بلاشبہ اہلیت اور محبان حسینؓ کی شہادت صبح قیامت تک انسانوں کو حوصلہ‘ ہمت اور دلیری کا سبق دیتی رہے گی۔ آج دنیا بھر میں مظلوم ومجبور افراد اپنی آزادی کی تحاریک کو روشنی کربلا سے ہی دے رہے ہیں۔ اہل غزہ نے ظالم‘ فاسق اور جابر اسرائیلی حکومت کی طرف سے دس ماہ بارود کی بارش کا مقابلہ جس جذبہ سے کیا بلکہ ظلم کا سامنا کررہے ہیں مگر وہ اپنے موقف اور حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ مظلوم کشمیری 77 برس سے بھارت کی فاشسٹ حکومتوں کا سامنا کررہے ہیں مگر ان کے پائیہ استقلال میں ذرا سی بھی لغرش نہیں آئی جوش ملیح آبادی یاد آگئے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
حیرت ہے کہ حرمت اور احترام سے مرقع محرم الحرام کی آمدکے ساتھ ہی وطن عزیز پر خوف کی چادر ڈال دی جاتی ہے ۔نویں اور دسویں کے دن سیکورٹی کے نام پر شاہراہوں‘ سڑکوں اور چوراہوں کی بندش کئی سوال جنم دیتی ہیں۔ یہ ہم کس طرف جارہے ہیں اور کون ہے جو یہاں اس قسم کے حالات پیدا کرکے ہ قومی وحدت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بظاہر ہمیں یہ معمول کے دن لگتے ہیں مگر سڑکوں کی بندش سے نویں اور دسویں محرم کو غیر معمولی حالات بنانا دانش مندی نہیں ۔اسلام امن اور سلامتی کے گلاب تقسیم کرنے کا مذہب ہے دشمنوں سے بھی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے والا واحد مذہب اسلام یہی ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے قاتلوں کے ساتھ جس حسن سلوک کا مظاہرہ کیا تاریخ صبح قیامت تک ان کی نظریں پیش کرنے سے قاصر ہے۔
غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ؓابتداءہے اسمعیلؑ
ےزےد کی تخت نشےنی سے جب خلافت کی جگہ ملوکےت نے لے لی تو حضرت امام حسےن ؓ نے اسے خلےفہ ماننے سے صاف انکار کر دےا۔آپ ؓ کے علاوہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ ،عبد اللہ بن عمرؓ،اور عبد اللہ بن زبےر ؓ بھی اُن صحابہ کرام ؓمےں شامل تھے جنہوں نے ےزےد کی بےعت کرنے سے انکار کےا۔جب حضرت عبداللہ بن زبےر ؓ کے ساتھ جھڑپ مےں ےزےدی لشکر کا سپہ سالار مارا گےا تو کوفے والوں نے امام عالی ؓ کو خلافت کا حقےقی حقدار سمجھ کر آپ ؓ کو خلافت کی دعوت دی اور آپ ؓ کا ساتھ دےنے کےلئے خطوط لکھے۔حضرت امام حسےن ؓ نے اُن کے خطوط کی تصدےق کےلئے حضرت مسلم بن عقےلؓ کو کوفے روانہ کےا۔تقرےباً 12ہزار کوفےوں نے بےعت کر کے اپنی عقےدت مندی کا اظہار کےا ۔حضرت مسلم بن عقےلؓ کو اُن کی وفاداری کا ےقےن ہو گےاتو حضرت امام حسےن ؓ کو اطلاع بھےجی کہ آپ ؓ تشرےف لے آئےں۔لوگ آپ ؓ کے دست مبارک پر بےعت کےلئے بے تاب ہےں۔ابن زےاد کواس صورت حال کاعلم ہوا تو حضرت مسلم بن عقےلؓ کو بے دردی سے شہےد کرا دےا گیا۔حضرت امام حسےن ؓ کو اپنے بھائی کی شہادت کا علم ہوگےا مگر آپ ؓ کے ارادے کو کوئی متزلزل نہ کر سکا۔آپ ؓ نے روانگی سے پہلے مدےنہ کی طرف رُخ مبارک کر کے عرض کی ۔"ےا رسو ل اللہ ! آپ ؓ کے نواسے کو خلافت کی تمنا ہر گز نہےں ،اُمت محمدےہ کو راہ راست پر لانا خلافت راشدہ کے طرےقے پر قائم کرنا چاہتا ہوں۔آپ کی نظر کرم اور اللہ سے صبر و استقامت کا طلبگار ہوں"۔ عمرو بن سعد نے آپ ؓ کا راستہ روکا تو آپ ؓ نے تےن شرائط پےش کےں مگر وہ مسترد کر دی گئےںاور بےعت پر اصرار کےا گےا۔امام عالی ؓ نے اپنے ساتھےوں کو بےعت سے آزاد کر کے فرماےا تم واپس جا سکتے ہو مگر اُنہوں نے حق کی راہ مےں آپ ؓ کے قدموں پر نثار ہونے کا عزم کر رکھا تھا۔ بعد ازاںےزےدی لشکر کو رسول اکرم سے اپنے رشتے کا احساس دلاےا مگر وہ اندھے اور بہرے ہو چکے تھے جن پر کچھ اثر نہ ہوااور حملہ آور ہو گئے۔ میدان کربلا میںاےک اےک کرکے آپ ؓ کے جانثاروںنے جام شہادت نوش کےا ۔آخر مےں حضرت امام حسےن ؓ نے مےدان مےں آکر دشمن کو للکارا،آپ ؓ پر تےروں کی بارش شروع ہو گئی،آپ ؓ دشمن کی صفوں مےں گھس گئے اور اُلٹ کر رکھ دےا۔آپ ؓ کا جسم مبارک تےروں سے چھلنی ہو گےا،زخموں سے خون زےادہ بہہ جانے کی وجہ سے ضعف محسوس ہونے لگا اس دورا ن سنان بن انس نے وار کےا اور نےزہ اس بے دردی سے مارا کہ سےنے کو چےرتا ہوا پار ہو گےا۔شہادت حسےن ؓ حق پرستوں کےلئے درخشاں سبق اور لائحہ عمل ہے ۔آپ ؓ نے اپنے خون سے اقدار دےنےہ کی آبےاری کر کے ثابت کر دےا کہ فسق و فجور کے ہر طوفان کے سامنے سےنہ سپر ہو جانا چاہئے۔ 
محرم الحرام کا سب سے بڑا پیغام خود کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور خوشنودی کے لیے پیش کرنا ہے۔ جب ہماری زندگیاں اسوہ حسنہ کے مطابق ہو جائیں گی تو اطراف میں پھیلے مسائل خود بخود ختم ہوتے رہیں گے۔ضرورت واقعی ہے کہ اساتذہ کرام ‘ والدین‘ اہل دانش او مشائخ عظام گاہے بگاہے نئی نسل میں صبر‘ برداشت اور معاف کرنے کے جذبات منتقل کریں یہی وقت کی ضرورت اور یہی پیغام کربلا ہے!!

ای پیپر دی نیشن