سولر سسٹم کی تجارت میں فراڈ ؟

پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ مہنگی بجلی عوام کیلئے وبال بن چکی ہے،ہرماہ موصول ہونیوالے بلوں کا حجم مسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے،جس پر وفاقی حکومت نے 200 یونٹ کو پچاس ارب روپے کی سب سڈی دیکر فوری ریلیف دیا ہے لیکن اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ریلیف کافی نہیں ہوگا،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 200 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کو مفت سولر پینلز فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے،500 یونٹ تک خرچ کرنے والے 45 لاکھ صارفین کے لئے سولر سسٹم لگانے کیلئے حکومت پنجاب پانچ سال کیلئے بلاسود قرض فراہم کرے گی،پنجاب حکومت کی جانب سے ریلیف نہایت خوش آئند ہے لیکن یہ ناکافی ہے، پنجاب کی سولر مارکیٹ کی جانب نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دیئے جانیوالے بجٹ میں عوام کوئی مستحکم سولر سسٹم نہیں لگوا پائیں گے،
ہمارا ایک المیہ ہے کہ ہم دوسروں کے المیوں سے فائدہ اٹھانے سے کبھی بھی نہیں چوکتے ہیں، ہمیں پتہ چل جائے سہی کہ کوئی ضرورت مند اپنا گھر بیچ رہا ہے تو ہم اس کے گھر کی قیمت اتنی کم لگا دیتے ہیں کہ وہ رو پڑتا ہے اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ضرورت مند اپنی اراضی یا اثاثہ کوڑیوں کے مول پھینک کربیچ جاتا ہے اور ہم خوش ہوکر اسے خرید کر کاروبار کا نام دے دیتے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ جب ملک میں سی این جی متعارف ہوئی تو سی این جی کٹوں کی درامد کی آڑ میں لوگ کھرب پتی ہوگئے ، یہی سی این جی سیکٹر جب پورے ملک کی گیس ختم کرگیا تو اس سیکٹر کو لپیٹ دیا گیا،اب مہنگی بجلی کا مسئلہ ہمارے گلے کو ا?گیا ہے، ایک طرف کاروبار ٹھپ ہورہے ہیں ، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، لوگ خوکشیاں کررہے ہیں، گھر ٹوٹ رہے ہیں، دوسری جانب مہنگی بجلی کی وجہ سے مافیا کیلئے سولر سسٹم کا کاروبار ایک گولڈ مائین بن گیا ہے،
سرمایہ دار طبقہ دھڑا دھڑ سولر پینلز، سولر انورٹرز، سولر سٹینڈز اور لوہر کے گارڈرخریدے جارہا ہے،بظاہر حکومت نے سولر پینلز ڈیوٹی فری کررکھے ہیں لیکن مستحکم اور سٹینڈرڈ سولر انورٹرز اتنے مہنگے ہیں کہ ان کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں، حکومت پنجاب نے سولر پینلز کی خریداری کیلئے جتنی زیادہ سے زیادہ رقم بطور قرض دینے کا اعلان کیا ہے اس میں تو ایک انورٹر بھی نہیں آتا‘ فرض کریں اگر عوام یہ پیسے لے بھی لیں تو اس سے کیا خریدیں گے؟ 
سولر بزنس کی شروعات کیساتھ ایک نئی علت پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ چور ذہنیت رکھنے والوں نے مقامی طور پر غیر مصدقہ انورٹر بنانے شروع کردیئے ہیں،جو ایک لاکھ روپے مالیت سے کم کے بک رہے ہیں ، صاف ظاہر ہے کہ سستے ہونے کی وجہ سے عوام انکی جانب راغب ہورہے ہیں اور خاص طور پر دیہی علاقوں کے تاجرکراچی اور لاہور سے سولر کا سامان خرید کر گاﺅں دیہاتوں میں سولر سسٹم لگائے جارہے ہیں، ان دیسی انورٹرز کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وولٹیج کو کنٹرول نہیں کرتے جس کی وجہ سے فریج ، فریزز ، اوون ، پنکھے سمیت بہت سے آلات کو جلا رہے ہیں جس سے سہولت کی بجائے نئی مصیبت پیدا ہوگئی ہے،متعدد شہریوں نے شکایت کی ہے کہ کوئی ایسا ادارہ نہیں جو بازار میں بکنے والے ان جعلی انورٹرز کا سدباب کرے؟ کون سا ایسا ادارہ ہے جو غیر معیاری انورٹرز، ایم پی پی ٹی کنٹرولرز، وی ایف ڈیز ، ایس پی ڈیز، بریکرزکی فروخت پر پابندی لگائے اور بازار میں صرف محفوظ آلات ہی فروخت کیلئے پیش کئے جائیں،ابھی تو دھڑا دھڑا سولر سسٹم لگ رہے ہیں اس کے بعد اگلے سیزن میں انورٹرز میں آگ لگنے کے واقعات میں تیزی آنا شروع ہوجائیگی کیونکہ اکثرانورٹرز غیر محفوظ اور غیر ہوادار جگہوں پر لگائے گئے ہیں، ہزاروں اناڑی بھی سولر سسٹم لگانے کے عمل میں شامل ہوگئے ہیںان کو چیک کرنیوالا کوئی نہیں ہے،عوام جعلی اور غیر معیاری سولر پینلز کی بھی شکایت کررہے ہیں کیونکہ جب سسٹم لگ جاتا ہے اور بجلی کی متوقع پیداوار نہیں ہوتی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، عوام کی ایک بڑی شکایت یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ کچھ سولر سسٹم انسٹالیشن کمپنیاں بھای رقومات ایڈوانس لیکر مسلسل معاہدوں کی وعدہ خلافی کررہی ہیں،حکومت سے اپیل ہے کہ غیر معیاری سولر سسٹم اور مالی فراڈ کے سدباب کیلئے بھی ایک تیز رفتار میکزم بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو اس فراڈ سے بچایا جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن