بریت ،تبدیلی یا پھر مارشل لا

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
چار پانچ دن ہو گئے اس کے باوجود سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلے پر زوردار تبصرے ہو رہے ہیں۔اس فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کو وہ خصوصی 77 نشستیں واپس دے دی گئی ہیں جو الیکشن کمیشن کے ایک فیصلے کے تحت پی ڈی ایم کی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پانچ کے مقابلے میں آٹھ ججوں کی اکثریت کی طرف سے دیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آٹھ ججوں سے متفق نہیں تھے انہوں نے اپنا فیصلہ بھی نہیں لکھا بلکہ جمال خان مندو خیل کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے وہ نوٹ فل کورٹ کی صدارت کرتے ہوئے پڑھ کر سنایا تھا جب کہ آٹھ ججوں کی متفقہ رائے جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کے سنائی جو دو ماہ کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے والے ہیں۔اس فیصلے کے بعد ایک بار پھر یہ نظر آیا کہ جو فیصلہ حق میں آئے اس کی تحسین کی جاتی ہے اور جو مخالفت میں آئے اس پر ججوں کو مطعون کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
دراصل یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا کسی سیاسی جماعت کی مخالفت میں نہیں کیا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اداروں کے درمیان اپنی پاور اپنے اختیارات کے مسئلے پر کوئی کمپرومائز نہ کرنا جیسے کہ سپریم کورٹ اور عدلیہ سمجھتی تھی کہ اس طرح فی الحال قاضی فائز عیسیٰ کو دو تین سال کی توسیع تو مل جائے گی لیکن اس طرح پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار رکھ لے گی اس کو پاس کرنے کا تو ہو سکتا ہے لیکن بنانے کا اختیار اس قدر زیادہ دے دیا گیا تو وہ سپریم کورٹ اور پاکستان کی عدالتوں پر حاوی یا بھاری پڑ جائے گی۔ اس میں وہ جج بھی شامل ہیں جنہوں نے سیٹوں کے فیصلے کے حق میں فیصلہ دیا وہ جج بھی شامل ہیں جو بظاہر پی ٹی آئی کی حمایت میں نظر نہیں آتے اور ان کے اکثر فیصلے پی ٹی آئی کو ماضی میں بے شمار اور شدید نقصانات سے دوچار کر چکے ہیں لیکن اب وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے اس مسئلے پر قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کرنا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو روکنا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر یا پیسے کے بل بوتے پر، وسائل کے بل بوتے پر کوئی بھی الٹا سیدھا قانون منظور کروا کر اس طرح وہ عدالت کو زچ کر سکتی تھی اور ہمیشہ کے لیے اپنی لونڈی بنا سکتی تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو فیصلہ آیا ہے یہ اداروں کے درمیان ایک عدم توازن کو ختم کرے گا یہ توازن برقرار رکھے گا کیونکہ جس معاشرے میں، جس قوم میں چیک اینڈ بیلنس کا عنصر ختم ہو جاتا یا اس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے وہاں پر قانون کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔قانون کا احترام ختم ہو جائے تو چور، ڈاکو، جرائم پیشہ لوگ، کریمنل ملک کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی لونڈیاں سمجھ کر ملک کو چلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بظاہر تو میرے خیال میں ایک اچھا بندھ بندھا ہے ان کے آگے ،ان تمام وسائل والی قوتوں کے آگے ، کچھ اداروں کے آگے۔ ابھی اس فیصلے کے آفٹرشاکس آنے باقی ہیں، دیکھیں اس آفٹر شاکس میں پی ٹی آئی کے مخالفین کیا کرتے ہیں۔ کیا یہ یہیں پر اپنی ہار تسلیم کر لیں گے۔ ویسے یہ ہار جیت والا معاملہ نہیں ہے یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اسے طوہاًوکرہاً تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ خوش دلی سے تسلیم کر لیا جائے تو ان کے لیے، پاکستان کے لیے ،اداروں کے لیے اور جمہوریت کے لیے سود مند ہوگا۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح تو عمران خان ان پر حاوی ہو جائے گا۔عمران خان اگر جمہوریت کے ذریعے حاوی ہوتا ہے تو کسی کو کیا پریشانی ہے۔آمریت سے کوئی بھی جمہوری حکمران بہتر ہے۔
اب ان کو پورے پاکستان سے77سیٹیں تھروآﺅٹ ملیں گی۔ اگر ان کو 77سیٹیں ملیں ، 23سیٹیں اس میں قومی اسمبلی کی بھی ہیں۔تواس سے ایک نیا سوال بھی اٹھتا ہے کہ جو سینیٹر بنے ہیں آزاد اور دوسرے جیسے فیصل واوڈا اور محسن نقوی جیسے لوگوں کو ، وزیر خزانہ جیسے لوگوں کو اس سے ابلائج کیا گیا وہ تو واپس ہو جائیں گے۔کیونکہ ابھی کے پی کے سینیٹر کا رزلٹ آنا باقی ہے۔ جب وہ رزلٹ آ گیا تو سینیٹ میں پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔اور جب پی ٹی آئی سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن گئی تو حکومت کمزور ہو جائے گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ تبدیل کرنا پڑ جائے کیونکہ جس کے پاس تعداد زیادہ ہو گی وہ اپنا چیئرمین سینیٹ بنا سکتا ہے، چیئرمین سینیٹ زیادہ تعداد سے بنتا ہے چاہے ایک ہی ووٹ کی کیوں نہ ہو۔جس دن پی ٹی آئی کے پاس وہ مطلوبہ تعداد آ گئی تو یہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح جب یہ دوسرے معاملات دیکھیں گے جیسے صدر کو پڑنے والے ووٹ جوتھے وہ ان نئے ووٹ کے ساتھ تھے جو ان کو ڈلوائے گئے۔یعنی صدر کو جو77ووٹ پڑے ان میں یہی 77ووٹ تھے۔ ان میں سے اگر 77ووٹ نکال لیے جائیں تو کسی بھی طریقے سے صدر منتخب نہیں ہو سکتے۔ اس کا مطلب یہ کہ آج والے فیصلے کے اثرات ،اس کے مضمرات آنے والے دنوں میں بے شمار ریفلیکٹ کریں گے اور اس طرح حکومت کی پوزیشن دن بہ دن کمزور ہوتی جائے گی اور حکومت کے پاس اپنے آپ کو بچانے کا کوئی موقع نہیں رہے گا،یعنی چانسز کم ہو جائیں گے۔فوج ایک خاص حد تک جا سکتی ہے کیونکہ عالمی دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ دیکھیں کہ یو این او کے سیکرٹری جنرل انٹیوگوتریس نے بڑا واضح کہہ دیا کہ پاکستان کو اپنے معاملات پر نظر ڈالنی چاہیے ورنہ شام اور ایران جیسی پابندیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ ملک تو وسائل والے ہیں، پاکستان کے پاس تو وسائل بھی نہیں ہے ،معدنیات نہیں ہے، تیل نہیں ہے،قرضہ جات پر چلنے والا ملک ہے تو پاکستان کیسے سروائیو کرے گا۔ دوسرا یورپین یونین پارلیمنٹ نے ایک بھاری اکثریت سے پاکستان کو واضح خبردار کیا ہے اس کے علاوہ جی ٹونٹی اور جی سیون نے پاکستان کو زبردست طریقے سے جب کہ جی سیون کے رکن ملک نے پاکستانی یونیفارم والی شخصیات میں کسی بھی شخص کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی سمجھتی ہے کہ آنے والے دن اتنے آسان نہیں کہ وہ سارا کچھ اپنی مرضی کے مطابق کر سکیں۔ کبھی کبھی زمینی حقائق جو ہیں وہ انسان کو دیکھتے بھالتے ہوئے سب کچھ سہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنے اچھے نہیں ہیں اسٹیبلشمنٹ، میاں برادران، زرداری اور دیگران کوفی الحال بیک فٹ پر آنا پڑے گا اگر پاکستان کو چلانا ہے۔ورنہ آنے والے دنوں میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ زرداری صاحب بھی آنے والے دنوں میں ن لیگ سے منہ موڑ لیں گے اور ان کی کوشش ہو گی کہ عمران خان مجھے صدر رہنے دیں اور میرے خلاف کوئی مواخذہ نہ لائیں اور مجھے پڑنے والے ووٹ کا قصہ نہ چھیڑیں۔اگر چھیڑ دیا تو میں نہیں رہ سکوں گا اس لیے ان کا جھکاﺅ اب عمران خان کی طرف جائے گا ۔باقی یہ پاکستان کی سیاست ہے جس میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن