راج دھانی سرفراز راجا 

Sarfrazraja11@gmail.com

دل کی بھڑاس تو سنا ہوگا آپ نے دماغ کی بھڑاس ؟ انگریزی میں سننے میں تو یہ کچھ عجیب سا نہیں لگتا البتہ اردو میں ترجمہ کرلیں تو کچھ غیر مانوس سا ضرور محسوس ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق بڑا معمولی سا ہے ،خیر اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ ان دنوں پاکستانی عوام بجلی کے بلوں سے بلبلا اٹھے ہیں اور ہمارے یہاں ان بھاری بلوں کیخلاف ایک بڑی بھرپور تحریک زور رو شور سے جاری ہے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ اس تحریک میں سراپا احتجاج ہیں اگرنہیں معلوم تو آپ شاید سوشل میڈیا سے دور ہیں ورنہ یقین جانیں ہر دوسری پوسٹ بجلی کی بھاری بلوں کے خلاف ہی ہے اور ہر پوسٹ میں لوگوں کو باہر نکلنے کا درس دیکر اس پوسٹ کو پھیلانے کا کہا گیا ہوتا ہے اور بجلی کے بلوں سے پریشان ہر شہری اس پوسٹ کو آگے پھیلانے کی ذمہ داری بخوبی نبھاتا ہے۔ یقین جانیں اس تحریک کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہوتا تو کچھ انگریز مخالف پوسٹیں کرکے نیچے لکھ دیا جاتا کہ اس پوسٹ کو اتنا پھیلا دو کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر بھاگ جائے۔ گزشتہ سال یہی دن تھے آزاد کشمیر میں حکومت کی جانب سے دیا جانیوالا سبسڈائزڈ آٹا ملنا بند ہوا تو لوگوں نے احتجاج شروع کردیا اسی دوران پاکستان بھر میں بھاری بجلی کے بلوں کیخلاف آواز اٹھی تو کشمیر میں لوگوں نے آٹے کیساتھ بجلی سستی کرنے کا مطالبہ بھی اپنے احتجاج میں شامل کرلیا یہ عوامی احتجاج کشمیر بھر میں پھیل کیا لوگوں کے مطالبات ناجائز نہیں تھے آگر گلگت بلتستان میں سستا آٹا فراہم کیا جارہا ہے تو کشمیر میں کیوں بند کردیا گیا ہے۔ اور منگلا ڈیم تعمیر کے معاہدے میں جب یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کے عوام سے صرف بجلی کی پیداواری لاگت وصول کی جائیگی تو بھاری ٹیکسز کیوں؟ اور پھر یہ مطالبات پورے کرنے کیلئے اخراجات کہاں سے آئیں گے اس کا حل تیسرے مطالبے کی صورت میں پیش کردیا گیا۔ ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس کی مراعات ختم کی جائیں۔ پہلے تو اس تحریک کو ہلکا لیا گیا لیکن جب صورت حال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دی تو آٹا سستا کردیا گیا بجلی کے نرخ تین روپے یونٹ مقرر کردئیے گئے۔ اس تحریک کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ خالصتا ایک عوامی تحریک تھی۔ آج بھی اس تحریک کے مرکزی رہنماو¿ں کے نام کم لوگوں کو ہی معلوم ہیں۔ اس تحریک کے اخراجات لوگوں نے خود برداشت کئے گھر گھر جاکر چندے اکٹھے کئے گئے۔ اور مطالبات پر فوکس رکھا گیا لوگ سوشل میڈیا سے نکل کر سڑکوں پر آئے ماریں کھائیں لیکن مطالبات منوا کر گھروں کو لوٹے، یہ تحریک عوامی تحریک کی ایک مثال ہے اس کی مقبولیت کو دیکھ کر کچھ سیاسی جماعتوں نے اس کا حصہ بننے کی کوشش کی لیکن کسی سیاسی جماعت کو اس تحریک کو ہائی جیک نہیں کرنے دیا گیا۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ ایسی تحریکیں عوامی نہیں بلکہ سیاسی بن جاتی ہیں جب کوئی سیاسی جماعت کسی عوامی ایشو پر تحریک چلائے گی تو وہ عوامی ایشو بھی سیاسی ہوجائے گا کیونکہ سیاسی جماعت کا مقصد تو بحرحال اپنی مخالف سیاسی جماعت کو نیچا دکھانا ہی ہوتا ہے۔ بجلی کے بلوں نے اس بار واقعی میں قہر ڈھا دیا ہے اور ہر بار قیمتیں بڑھانے میں جن کم بجلی استعمال کرنے والوں پر “کوئی اثر “نہیں ڈالا جاتا اس بار تو وہ زیادہ متاثر ہوئے یقین جانیں اگر پچاس ہزار ماہانہ بل دینے والے کا بل ستر ہزار آجائے گا تو وہ برداشت کرلے گا اور اگر نہیں کرسکے گا تو اگلی بار ایک اے سی کم چلا کر بل کم کرلے گا لیکن اگر کم سے کم بجلی استعمال کرنیوالے کا بل تین ہزار کی بجائے پانچ ہزار آجائے گا تو وہ کہاں جائے گا ؟کیا کرے گا ؟ لیکن چلیں تین ماہ کیلئے ہی سہی حکومت نے ان صارفین کو قیمتوں میں اضافہ واپس لیکر کچھ سنبھلنے کی مہلت دیدی۔ بجلی مہنگی کرنے جیسے فیصلوں کو حکومت غیر مقبول فیصلے کہہ کر آئی ایم ایف کی شرائط اور مجبوری قرار دے دیتی ہے۔ لیکن اصل بڑے فیصلے تو یہ ہیں کہ آپ حکومتی اخراجات کم کریں اعلی عہدوں پر بیٹھنے والوں کی مفت بجلی اور پیڑول بند کریں یہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے اگر ایسے غیر مقبول فیصلے حکمران کرلیں تو یقین جانیں وہ عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں لیکن شاید یہاں بھی کوئی “بڑی مجبوریاں “آڑے آجاتی ہیں۔تو بات ہوئی تھی دماغ کی بھڑاس کی تو کزشتہ دنوں ایک دوست نے ایک یوٹیوبر کا کلپ بھیجا جس میں وہ حالیہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کو لے کر حکومت کیخلاف خوب بولا کلپ بھیجنے والے نے ساتھ ایک نوٹ بھی لکھا تھا کہ ایک نڈر اور بیباک صحافی نے اپنا فرض ادا کردیا اب آپ بھی اپنا فرض ادا کریں اور گھروں سے نکلیں تو بات یہ ہے بھئی کہ ایسے نڈر اور بیباک “صحافیوں” سے ہمارا سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ان کا مقصد تو پورا ہوجاتا ہے جب ان کو ویوز اور ویوز کیلے نتیجے میں ڈالرز مل جاتے ہیں۔ ان کی تقریر سے عوام کے دماغوں میں بھاری بل وصول کرکے جمع ہو جانیوالی بھڑاس بھی نکل جاتی ہے۔ مزید بھڑاس وہ اس کلپ کو مزید درجنوں افراد تک پہنچا کر نکال دیتے ہیں اور پھر نکل پڑتے ہیں کسی دوست رشتہ دار سے ہیسے ادھار لینے۔دماغ کی بھڑاس نکل گئی اب بل بھی تو بھرنا ہے،ویسے دل اور دماغ کی بھڑاس میں فرق اتنا سا ہے کہ ایک کا تعلق جذبات سے ہے دوسری کا خیالات سے

ای پیپر دی نیشن