اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
فلموں میں ہم ایسا منظر اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی گھر یا عمارت کے باہر ایک وین میں بیٹھے لوگ اپنے آلات کی مدد سے اندر ہونے والی گفتگو سن رہے ہیں۔ مگر اب کان لگا کر دوسروں کی گفتگو سننے کے اور بھی کئی جدید طریقے موجود ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ”فون ٹیپنگ“ زیر بحث ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی ہے اور آئی ایس آئی کو مکمل قانونی اختیار سونپا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شہری کی کال ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ پہلے ایسا قانونی طور پر ممکن نہیں تھا ۔ جو بھی کال ریکارڈ ہوتیں ، قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہوتیں۔
”کال ریکارڈنگ“ سے متعلق قانون سازی اور آئی ایس آئی کو ریکارڈنگ کا اختیار دئیے جانے سے متعلق ”خبر“ جیسے ہی اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا کی زینت بنی ، ملک کے طول و عرض میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ تبصرے، تجزیے ہونے لگے، قانونی ماہرین کی آراءسامنے آنے لگیں۔ پی ٹی آئی نے کال ریکارڈنگ سے متعلق قانون سازی اور ریکارڈنگ کا اختیار آئی ایس آئی کو دئیے جانے سے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس حکومتی اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک معروف نجی ٹی وی چینل کے اینکر نے جب پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما سے سوال کیا کہ آپ کے دور میں بھی آڈیو ریکارڈ کر کے منظر عام پر لائی جاتی تھیں تو رہنما کا جواب تھا ”سیاسی مفاد“ کے لیے ہم نے کبھی اس طرح کی کوشش نہیں کی۔ پی ٹی آئی ہی کے دور میں جب مریم نواز کی مبینہ آڈیو آئی تھی تو یہی (پی ٹی آئی) وہ لوگ تھے جو خوشی کے شادیانے اور ڈھول بجا رہے تھے۔ وزیراعظم کے سیاسی مشیرسابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے عمران خان ماضی میں کہتے تھے کہ وزیراعظم کی فون کال ریکارڈنگ کوئی ایسا عمل نہیں جسے غیر مستحسن قرار دیا جائے۔ وہ ہمیشہ کال ریکارڈنگ کی حمایت اور حق میں کھڑے نظر آئے لیکن اب پی ٹی آئی کی جانب سے ”کال ریکارڈنگ“ پر سخت مو¿قف اور ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو شہریوں کی کالزسننے اور ٹیپنگ کی اجازت دینے پردیگر جماعتیں بھی فون ٹیپنگ کے اس اقدام کو غلط اور انسانی حقوق کے منافی قرار دے رہی ہیں۔
کال ریکارڈنگ کے ایشو نے کم و بیش ہر پاکستانی شہری کو سخت تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اب ان کی پرائیویسی کسی سے چھپی نہیں رہے گی۔ یہ ویسے بھی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
8جولائی 2024ءکو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے ایک ایس آر او 1005(1)2024جاری کیا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996کے سیکشن 54کے تحت قومی سلامتی کے تناظر میں آئی ایس آئی کا گریڈ 18کا افسر ٹائم ٹو ٹائم کوئی بھی کال ریکارڈ کر سکتا ہے۔ اس ایس آر او کا آنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک بھونچال سا آ گیا ہر کوئی اپنی دانست کے مطابق اس پر رائے زنی کرنے لگا۔ زیر تبصرہ SROکو آئین کے آرٹیکل 4، آرٹیکل 5(2) ، آرٹیکل 9، آرٹیکل 14اور آرٹیکل 19سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں مختلف افراد اور وکلاءکی جانب سے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں رٹ پٹیشنز بھی کر دی گئی ہیں۔
لیکن اب کال ریکارڈنگ پاکستان میں کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی ملک میں ٹیلی کام کمپنیاں، پبلک ڈیلنگ کے سرکاری ادارے کسی کی بھی شکایت پر معلومات کے حصول کے لیے کال ریکارڈ کرتے رہے ہیں۔ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کہا جاتا اور یہ الفاظ سننے کو ملتے کہ کوالٹی ایشورنس کے لیے کال ریکارڈ کی جا رہی ہے یا سروس کو بہتر بنانے کے لیے کال کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اس عمل میں ایک پارٹی کی رضامندی شامل ہوتی اور ریکارڈنگ سے پہلے متعلقہ فرد کو مطلع کیا جاتا۔
جہاں تک حساس اداروں کی جانب سے خفیہ کال ٹیپنگ کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ ماضی بعید سے جاری ہے۔ فون کال ریکارڈنگ کے حوالے سے اداروں پر لگنے والے الزامات بھی نئے نہیں۔ ماضی قریب میں شہباز شریف، عمران خان، سردار لطیف کھوسہ، چودھری پرویز الہٰی ، شوکت ترین، تیمور جھگڑا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی خوش دامن کی ٹیپ ریکارڈ نگ اس کی روشن مثال ہیں۔
فون ریکارڈنگ پاکستان ہی نہیں ، دنیابھر میں کی جاتی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، چین، روس،آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، جاپان، جنوبی افریقہ، بھارت، جنوبی کوریا، میکسیکو، اٹلی، سپین، ہالینڈ، سویڈن، ناروے، سوئٹزر لینڈ، ترکی، سنگا پور، برازیل، ارجنٹائن، نیوزی لینڈ، عرب امارات اور دیگر ملکوں میں بھی مختلف قوانین کے تحت شہریوں کی کال ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ البتہ، امریکہ،کینیڈا، برطانیہ، چین، بھارت، جاپان، جنوبی افریقہ، برازیل، جنوبی کوریا، میکسیکو، سنگا پور، عرب امارات، نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن میں کال ریکارڈنگ سے قبل فریقین میں سے کسی ایک فریق کی رضامندی لازمی ہے۔ جبکہ جرمنی فرانس، روس، آسٹریلیا، اٹلی، سپین، ہالینڈ، سویڈن، ناروے، سوئٹرزلینڈ اور ترکی میں شہریوں کی کال ریکارڈنگ کے لیے دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری اور لازمی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں شہریوں کی کال ریکارڈنگ کا تعلق ہے تو ملک بھر میں ایک کروڑ 92لاکھ سے زیادہ موبائل فون اور 30لاکھ سے زائد لینڈ لائن فون صارفین ہیں۔ جن کی ہر کال کی ریکارڈنگ آسان عمل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ایس آر او (SROمیں بیان کیا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے پیش نظرکوئی بھی کال ریکارڈ ہو سکتی ہے تو صرف ایسے افراد کی کال ریکارڈ ہو گی جو دہشت گردی اور اس سے متعلق جرائم میں ملوث ہوں یا ملک دشمن عناصر کے سہولت کار ہوں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں کی طرز پر کال ریکارڈنگ سے قبل شہریوں کو مطلع کیا جائے کہ ان کی کال ریکارڈ ہو سکتی ہے۔ تاکہ عوام فضول گفتگو سے بچ سکیں اور کسی مشکل کا شکار نہ ہوں ۔ معروف سینئر قانون دان ندیم سرور سے جب کال ٹیپنگ سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ قانون کے سیکشن 54پر عملدرآمد سے قبل اس قانون کے رولز بنائے جانے چاہئیں تاکہ کال ریکارڈنگ کی شرائط اور اس سے جڑی تفصیلات کا سب کو علم ہو۔
کسی کی فون کال ریکارڈ کر کے اُس کی تشہیر کرنے کے حوالے سے شریعت کیا کہتی ہے ؟ تو واضح رہے کہ کسی مجلس میں جو گفتگو کی جاتی ہے وہ شرکائے مجلس کے پاس امانت ہوتی ہے جس کی مجلس میں شریک افراد کی اجازت کے بغیر تشہیر کرنایا شرکائے مجلس کے علاوہ دیگر افراد سے بیان کرنا خیانت کے زمرے میںآتا ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔ نیز کسی بھی شخص کے لیے دوسرے کی بابت خفیہ طور پر سننے، جاسوسی کرنے اور اسے ریکارڈ کرنے کی شرعاً اور اخلاقاً بھی اجازت نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص کسی سے موبائل پر دورانِ گفتگو کسی کے مالی یا جانی نقصان یا آبروریزی کے حوالے سے گفتگو کرے اور قوی اندیشہ ہو کہ وہ شخص کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو نقصان سے بچنے کے لیے متعلقہ شخص کو اس گفتگو کی بات بتایا جا سکتا ہے کہ آپ کو فلاں شخص سے اس طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ یقین نہ کرے اور واقعتا اُسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو بوقت ضرورت متعلقہ شخص کو گفتگو سے متعلق ریکارڈنگ بھی سنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا جرم قومی یا اجتماعی سطح کاہو اور گفتگو کے اخفاءکی صورت میں اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہوتو جن افراد کو خطرات لاہق ہیں انہیں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شرعاً ریکارڈنگ سنانے کی اجازت ہے۔ تاہم دونوں مواقع پر دو باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں۔ (1) ریکارڈنگ صرف انہی لوگوں کو سنائی جائے جنہیں سنانا مقصود ہو، عام تشہیر نہ کی جائے۔(2)جس سے متعلق بات ریکارڈ ہو اُس کی پردہ داری رکھی جائے۔ مقصد تذلیل نہیں ہونا چاہیے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی عام شخص کے لیے اخلاقاً و شرعاً دوسرے کی آواز اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کسی ناجائز مقصد کے لیے گفتگو ریکارڈ کی جائے اور پھر اُس کی تشہیر بھی کر دی جائے تو یہ ناجائز اور گناہ ہو گا۔ شریعت اس کی ممانت کرتی ہے۔
ٹیلی کام کے شعبے سے منسلک ایک نہایت ذمہ دار شخص نے بتایا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسا نظام موجود ہے کہ وہ شک کی بنیاد پر کسی بھی کال کو اپنے دفتر میں بیٹھے ٹیپ کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس ایسے جدید آلات ہیں جن کی کسی بھی کال تک رسائی آسان اور ممکن ہے۔ لینڈ لائن کی طرح موبائل نیٹ ورک میں بھی ایکسچینج ہوتے ہیں ۔ ادارے اُن میں بھی اپنے آلات لگا کر ساری گفتگو سن اور ٹیپ کر سکتے ہیں۔ گفتگو کرنے والے شخص یا اشخاص کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کی کال ریکارڈ ہو رہی ہے؟ اس کا علم نیٹ ورک پرووائیڈرکو نہیں ہوتا۔ تاہم لینڈ لائن نیٹ ورک کو ٹیپ کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ اس کی تار کے ساتھ ٹیمپرنگ کی جا سکتی ہے۔ لینڈ لائن کی صورت میں کیبل جس ڈسٹری بیوشن باکس سے گزر کر آ رہی ہو وہاں کوئی بھی شخص اپنا ٹیلی فون لگا کر آپ کے نمبر سے کال ملا اور سن سکتا ہے۔ ایسی خبروں کے بعد شہریوں میں سراسیمگی پائی جاتی ہے۔ خاص کر وہ لوگ بہت خوف زدہ ہیں جو کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ایسی سرگرمیوںمیں ملوث پائے جاتے ہیں۔سماج دشمن عناصر کے لیے کال ٹیپنگ خطرے کی گھنٹی ہے۔
آئی ایس آئی کو کال ریکارڈنگ کی اجازت!
Jul 16, 2024