انقلابوں کی باتیں اور پاکستان (1)

آج سے لگ بھگ 2 ہزار برس قبل رومن ایمپائر کے ایک غلام گلیڈی ایٹر (عوام اور خواص کی تفریح کیلئے مرنے مارنے کا کھیل کھیلنے والے) سپارٹیکس نے اپنے اور ساتھیوں کے حالات بدلنے کیلئے تلوار اٹھا لی۔ رومن ایمپائر میں غلاموں کی زندگی انتہائی تلخ تھی بلکہ جس طرح وہ گزر بسر کرتے تھے اسے کسی بھی اعتبار سے زندگی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس سے قبل بھی غلاموں نے دو بار کوشش کی تھی لیکن اپنے حالات نہ بدل سکے۔ اس بار تو انہوں نے سر پر کفن باندھ لئے۔ ایک آتش فشاں پہاڑ کو، جو لاوا اگلنا ترک کر چکا تھا، اپنا مسکن بنایا۔ کئی برسوں تک زبردست لڑائی ہوئی سپارٹیکس کے ساتھی کئی کئی روز بغیر کھائے پیئے بے جگری سے لڑتے رہے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ لڑائی ہارنے پر 6 ہزار کے قریب غلاموں کو پھانسی دیدی گئی سپارٹیکس کو بھی بعد میں ڈھونڈ کر گرفتار کرکے یہی سزا ملی لیکن ان کی کئی برسوں کی جدوجہد سے دوسرے غلاموں کی زندگیوں کو قدرے ریلیف مل گیا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب رومن بادشاہ کو اپنے تمام مقبوضہ علاقوں کے رہنے والوں کو برابر کے رومن شہری قرار دینا پڑا۔ 
انقلابات یوں اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ لمبے عرصے تک حادثات کی طرح ان کی پرورش کرنا پڑتی ہے۔ انہیں خون جگر دیکر پالنا اور سنبھالنا پڑتا ہے۔ غرض آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا کام بہت ہی نازک اور حساس ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کامیاب انقلاب کئی ناکام کوششوں سے ملکر بنا ہوتا ہے اور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کامیابی سے برپا ہو بھی جائے تو اپنے مکمل مقاصد حاصل نہیں کر پاتا۔ جدید دور میں برپا ہونے والے انقلاب فرانس ہی کی مثال لیں۔ بھاری ٹیکسوں اور ظالمانہ قوانین کے خلاف نرگس ”کئی“ سال روتی رہی تب کہیں جا کر والٹیئر، روسو اور مونٹا سکیو جیسے دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگیوں کی عرق ریزی کے خراج ادا کرکے لوگوں کی تربیت کی، انہیں ظلم کے خلاف ابھارا پھر کہیں جاکر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوا۔ 
انقلاب فرانس کا اثر اس قدر ہمہ گیر تھا کہ چینی رہنما چو این لائی سے کسی نے اس پر تبصرہ کرنے کیلئے کہا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ ”اس انقلاب کے دنیا پر اثرات ابھی تک جاری ہیں۔ جب یہ مکمل ہو جائیں گے تب ہی کوئی تبصرہ کیا جا سکتا ہے؟ انقلاب فرانس کے جہاں کئی ثمرات تھے وہاں بادشاہتوں کے درمیان ریپبلک (شہری ریاست) کا تصور اجاگر کرنا شاید سب سے اہم کارنامہ تھا۔ بڑی قربانیاں دی گئیں، کئی سر انقلاب کے دوران تن سے جدا ہوئے۔ چوکوں پر لوگوں کو لایا جاتا اور سر کاٹ دیئے جاتے۔ یہ سلسلہ انقلاب کے بعد بھی جاری رہا اور پھر انقلاب سے پہلے سر کاٹنے والوں کی باری آئی۔ ہزاروں لوگ آناً فاناً ”گلوٹین“ ہوئے پھر کہیں نظر میں سبزے کی بہار آئی۔ لیکن یہ بہار بھی مکمل نہیں تھی دنیا پر ہمہ گیر اثرات ڈالنے والا انقلاب فرانس ملکی داخلی سیاسی اعتبار سے بہت کمزور ثابت ہوا۔ غیر اہم لیڈر شپ انقلاب کا تسلسل قائم نہ رکھ سکی اور نتیجہ نپولین کی طویل آمریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ 
مغرب کے مشہور مو¿رخ اور آئیڈیاز آف ہسٹری کے ماہر عسایا برلن نے انقلاب روس کو 20 ویں صدی کے دو بڑے تحفوں میں سے ایک تحفہ قرار دیا ہے (دوسرا تحفہ اس وقت زیر بحث نہیں۔ غالباً ٹیکنالوجی کی ترقی تھا)انقلاب روس بھی راتوں رات برپا نہیں ہوا تھا بلکہ روسی عوام نے برسوں جدوجہد کی، جانیں قربان کیں۔ مدتوں ”سرد گھروں“ کی قید کی صعوبتیں برداشت کیں پھر کہیں جاکر گوہر مقصود ہاتھ آیا۔ عسایا برلن نے روسی انقلاب کو تحفہ اس لئے قرار دیا تھا کہ اس کے برپا ہونے کے بعد اس کے خیال میں جدید سرمایہ دارانہ دنیا میں مزدور بھی کسی شمار و قطار میں آ گئے اور انہیں کئی سہولتیں میسر آگئیں۔ جو مغربی سرمایہ دار ملک اس انقلاب کی دسترس سے بظاہر دور رہے وہ بھی در حقیقت اس کے اثرات سے مکمل محفوظ نہ رہ سکے اور انہیں بھی اپنے مزدور طبقات کو مراعات دینا پڑیں برابر کے شہری تسلیم کرنا پڑا۔ جدید دنیا کے بائیں بازو والے دانشوروں نے تعریفوں کے جتنے پل روسی انقلاب کے باندھے ہیں شاید ہی کسی اور سے متعلق اتنا اظہار خیال کیا ہو لیکن اس انقلاب کے نمودار ہونے کے بعد اہم ترین رہنما لینن فالج میں مبتلا ہو گئے اور انقلاب سٹالن جیسے لوگوں کے ہاتھوں آ گیا جولینن کے نائب شمار نہیں کئے جاتے تھے بلکہ لینن کے نائب ٹراٹسکی کو سوویت یونین سے بھاگ کر میکسیکو جانا پڑا جہاں انہوں نے انقلاب کے ”اغواء“پر کتاب (Revolution Betrayed) لکھ ڈالی۔ روسی انقلاب کے بعد سوویت یونین نے معاشی اعتبار سے گراں قدر ترقی کی لیکن شخصی آزادیوں کا مسئلہ بڑی شدت سے ابھرا۔ پھر وہی صعوبتیں پھر وہی ”سرد گھروں“ کی اذیت.... شخصی آزادیوں کا معاملہ اتنا شدید تھا کہ سوویت یونین کے آخری رہنما گورباچوف نے سوویت یونین کے نظام کے خاتمے کو بھی اپنی کتابوں پریسٹرائیکا اور گلاسناسٹ (Perestroilca and Glasnost) میں بڑے شدومد سے انقلاب قرار دیا اور کہا کہ یہ ”بغیر خون بہائے انقلاب ہے اور اگر اس میں دیر ہو جاتی تو ہزاروں افراد تہہ تیغ ہو جاتے اور بہت لہو بہتا“مغربی دنیا کے کئی بڑے دانشوروں اور میڈیا نے خصوصاً ان کے مو¿قف کی حمایت بھی کی۔ 
وہ انقلاب جسے ایک بہت بڑا دانشور 20 ویں صدی کا تحفہ قرار دے رہا ہے اس کے انجام کو انقلاب قرار دینے کی دلیلیں بھی اسی طرح دی گئیں جس طرح روسی انقلاب کے فضائل بیان کئے جاتے رہے۔
 وہ انقلاب جنہوں نے دانشوروں کے مطابق تاریخ کے رخ موڑ دیئے، جن کیلئے برسوں تیاریاں کی گئیں ، تربیت یافتہ کارکنوں کی قابل ذکر فوج تیار کی گئی، بے تحاشا قربانیاں دی گئیں اپنے کئی پہلوو¿ں کے اعتبار سے تشنہ بھی رہ گئے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انقلاب برپا نہیں ہونے چاہئیں یا انقلابات سے مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ بے شک انسانی ترقی میں انقلابات کا بہت اہم ہاتھ ہے اور یہ انسانی حقوق کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں کہ بن مانگے تو پانی کا ایک گلاس ملنا بھی محال ہو جاتا ہے، بنیادی حقوق اور مراعات کا حصول تو بہت دور کی بات ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انقلابات کی آبیاری میں ذرا سی کسر بھی رہ جائے، کارکنوں اور عوام کی تربیت نہ ہو سکے تو انسانی آزادیوں کیلئے برپا کئے جانے والے بڑے بڑے انقلابات بھی آمریتوں کا کھلونا بن کر رہ جاتے ہیں اور اپنے بنیادی مقاصد کی طرف زیادہ بڑھ نہیں پاتے۔ 
دو سیاسی فلاسفروں نے ایک کتاب (Revolution and Dictatorship) تحریر کی ہے اس میں کئی انقلابات پر بحث کرتے ہوئے اس باریک نکتے کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے اور بحث کی گئی ہے کہ اگر انقلابات کی صحیح طرح آبیاری نہ کی جائے تو وہ جلد ہی بدترین آمریتوں میں بدل جاتے ہیں۔ اور انکے مقاصد بڑی حد تک بجائے خود بے مقصدیت کی موت مر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام 
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا....!
............................ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...