مجھے تو 8 فروری کے عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو اسکے انتخابی نشان سے محروم کرنے کا فیصلہ ہی مشکوک نظر آیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست میں کھلبلی مچانے والا سارا فساد الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کا ہی شاخسانہ ہے۔ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں بے شک کسی پارٹی کے انتخابی نشان کو اسکی رجسٹریشن کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے اور رجسٹریشن کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے جس نے کسی پارٹی کے انتخابات سمیت تمام قواعد و ضوابط پورے ہونے پر بطور سیاسی جماعت اسے رجسٹرڈ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹراپارٹی انتخابات مشکوک قرار دیکر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا تو اس سے بادی النظر میں یہی مراد تھی کہ پی ٹی آئی کی بطور پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے ورنہ کسی رجسٹرڈ پارٹی کو اسکے انتخابی نشان سے کسی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا۔ میری یادداشت تو مجھے انتخابی شیڈول پر عملدرآمد کے مراحل میں پی ٹی آئی کو اسکے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے فیصلے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پریس ریلیز کی جانب بھی متوجہ کر رہی ہے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے اس لئے وہ بطور پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی مجاز نہیں رہی اور اس بنیاد پر اسے اس کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا جواز بھی ختم ہو گیا ہے۔
مگر اب الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے فیصلہ پر ایک وضاحتی بیان جاری کرکے نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس کا نام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے اور یہ فہرست الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ تو جناب! اگر انتخابات کے شیڈول کے اجراءکے وقت پی ٹی آئی کی حیثیت ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی تھی تو پھر اسے کس قانون کس اصول اور کس منطق کے تحت اسکے انتخابی نشان سے محروم کرکے اسے بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مستوجب ٹھہرایا گیا۔ انتخابی نشان سے پی ٹی آئی کی محرومی کا کیس الیکشن کمیشن ہی نہیں‘ پشاور ہائیکورٹ‘ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی زیرسماعت رہا اور اس کیس میں نامور ”عالی دماغ“ وکلاء اور اٹارنی جنرل الیکشن کمیشن اور حکومت کی وکالت کرتے رہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے ایک سنگل بنچ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور پھر پشاور ہائیکورٹ کے ایک ڈویڑن بنچ نے بھی اس فیصلہ کی توثیق کر دی مگر پشاور ہائیکورٹ کے ایک فل بنچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا جس کے بعد پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے بھی‘ جس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے‘ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
کیا ان اعلیٰ عدالتی فورموں پر الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ تو ہے مگر انٹراپارٹی انتخابات نہ کرانے پر اسے انتخابی نشان ”بلے“ سے محروم کیا گیا ہے۔ اس وقت تو الیکشن کمیشن کا یہی موقف تھا کہ پی ٹی آئی کی بطور جماعت رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے اس لئے وہ بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی مجاز ہی نہیں تو اسے انتخابی نشان کیسے دیا جا سکتا ہے۔
میری دانست میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے 13 میں سے آٹھ فاضل ججوں نے پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کیلئے اسی بنیاد پر حقدار ٹھہرایا ہے کہ محض انتخابی نشان نہ ملنے پر اسکی سیاسی جماعت کی قانونی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی‘ وہ سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
اور یقیناً پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس کے باقاعدہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہونے کی اب الیکشن کمیشن بھی تصدیق کر رہا ہے۔ پھر جناب! یہ سارا فساد پیدا کرنے کی آخر ضرورت کیا تھی۔ اگر پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان کے ساتھ بطور جماعت انتخابی میدان میں اتری ہوتی تو اسے ایک مظلوم جماعت کا پراپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا نہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ردعمل میں پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کی عوام میں مقبولیت ساتویں آسمان تک پہنچتی۔ وہ بے شک انتخابات کے پراسس کے دوران بھی اپنی قیدوبند کے تناظر میں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کر چکے تھے مگر پی ٹی آئی کی بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے سے محرومی نے انہیں ”اَن ٹچ ایبل“ بنا دیا اور آج پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے بطور جماعت مخصوص نشستوں کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے تو اسی بنیاد پر اب فارم 47 والا جھگڑا مزید فروغ کیوں نہیں پائے گا اور اسی تناظر میں پی ٹی آئی اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیوں نہیں کریگی۔ پھر اس جھگڑے کا منطقی انجام تو دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے۔
یہ جھگڑا بڑھانے میں یقیناً الیکشن کمیشن کا بنیادی کردار ہے جو چاہتا تو محض انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کے بجائے اے این پی کی طرح اسے بھی جرمانہ کرکے اسکے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابی میدان میں بطور پارٹی اترنے کی اجازت دے دیتا۔ پھر اس جھگڑے کو آگے لے جانے کا ”کریڈٹ“ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے حصہ میں آیا جس نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر صاد کیا اور مکھی پر مکھی مارتے ہوئے پی ٹی آئی کو بطور جماعت انتخابی عمل سے باہر نکال دیا۔ آج یہی عدالت عظمیٰ فل کورٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی جماعت کی حیثیت تسلیم کر رہی ہے تو کیا اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو احتساب کے کٹہرے میں نہیں آنا چاہیے کہ ایک رجسٹرڈ جماعت کو اس نے انتخابی عمل سے باہر نکال کر کسی بھی شہری کو جماعت سازی کا حق دینے والی آئین کی دفعہ 18 سے کیوں انحراف کیا جبکہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ سے اس کیلئے عوامی ہمدردیوں کے نئے دروازے کھل گئے۔
سپریم کورٹ تو اس وقت بھی کتھارسس کے عمل سے گزر رہی ہے اور انصاف کے قتل کے حوالے سے اس نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے باعث لگنے والے لیبل کو 45 سال بعد اپنے ماتھے سے اتارنے کی کوشش کی ہے مگر نظریہ ضرورت کی شکل میں بھٹو قتل کیس کے فیصلہ سے قبل اور بعد میں بھی لگنے والے لیبل آج بھی انصاف کے اس برتر ادارے کے ماتھے پر سجے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ نظریہ ضرورت والے فیصلوں میں ماورائے آئین اقدام والوں کا نہ صرف آئین کو توڑنے اور معلق کرنے کا اقدام جائز قرار پایا بلکہ پارلیمنٹ کے وجود کے بغیر ہی انہیں آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا گیا۔ اب مخصوص نشستوں والے کیس میں آٹھ فاضل ججوں کے فیصلہ پر شدومد کے ساتھ اس حوالے سے تنقید کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی تو اس کیس میں سرے سے فریق ہی نہیں تھی پھر اسے مخصوص نشستوں کا حقدار کیسے ٹھہرا دیا گیا۔ میری ناقص عقل کے مطابق تو فیصلہ صادر کرنے والے عدالت عظمیٰ کے آٹھ فاضل ججوں نے اس لاجک کی بنیاد پر پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں کیلئے حق تسلیم کیا ہے کہ اس کی ایک سیاسی جماعت کی حیثیت برقرار ہے، چاہے اس نے انتخابات میں حصہ لیا ہے یا نہیں۔ اگر لاجک یہی ہے تو پھر ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے محروم کرنے کی بنیاد پر فاضل فل کورٹ کو آٹھ فروری 2024ءکے انتخابات کا پورا پراسیس غیرقانونی اور کالعدم قرار دیکر الیکشن کمیشن کو ازسرنو انتخابات کی ہدایت کرنی چاہیے تاکہ فارم 47 کا تنازعہ مزید گلے پڑنے سے روکا جا سکے۔
اس وقت تک تو اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کرنے والے پانچ فاضل جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے سے متعلق اپنے سابقہ فیصلہ کا ہی فل کورٹ میں دفاع کرتے نظر آئے ہیں جس کی لاجک یقیناً یہی ہوگی کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن رولز کے تحت ایک رجسٹرڈ پارٹی نہ ہونے کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا تھا جبکہ اکثریتی فیصلہ میں پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت تسلیم کرکے فی الواقع سارے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ اگر اس وقت بھی کتھارسس کے عمل سے گزر رہی ہے تو پھر بجائے اسکے کہ چالیس پنتالیس سال بعد فل کورٹ کا یہ فیصلہ بھٹو کیس کی طرح عدالتی نظرثانی کا متقاضی ٹھہرے‘ الیکشن کمیشن کے وضاحتی بیان کی روشنی میں کیوں نہ فل کورٹ کے اس حالیہ فیصلہ کو بھی کتھارسس کے عمل کا حصہ بنا کر انصاف کی عملداری کی سمت درست کرلی جائے۔ ورنہ اس فیصلے سے انتشار و فساد کے جو نئے راستے کھل رہے ہیں‘ وہ سسٹم کی بقاءکیلئے کوئی اچھے اشارے تو نہیں دے رہے۔