بجلی کے نرخ بڑھاتی عوامی اضطراب سے بے نیاز حکومت

حکومت نےملک بھر کے لیے بجلی مزید مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کا نوٹیفکیشن پاور ڈویڑن نے جاری کیا۔ گھریلوصارفین کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7.12روپے تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ ماہانہ200 یونٹ تک کے گھریلو صارفین کو صرف 3 ماہ کے لیے اس اضافے سے مستثنیٰقرار دیا گیا ہے۔ باقی گھریلوصارفین کے لیے بجلی کا بنیادی ٹیرف بڑھادیا گیا جس کے نتیجے میں فی یونٹ بنیادی ٹیرف48 روپے84 پیسے تک پہنچ گیا ہے۔ماہانہ201 سے300 یونٹ تک کا ٹیرف7.12 روپے اضافے سے34.26 روپے ہوگیا۔ماہانہ سات سو یونٹ سے زیادہ کا ٹیرف 6.12 روپے اضافے سے 48.84 روپے ہو گیا۔ ٹیکسوں کو ملا کر سلیب کے حساب سے فی یونٹ ٹیرف کی قیمت مزید بڑھ جائے گی جبکہ بجلی کے بلوں میں ماہانہ ایک ہزار روپے کے فکس چارجز بھی شامل کر دیئے گئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے گزشتہ روز ہی کہا گیا تھا کہ ٹیکس چوروں ،مافیاز اور بددیانت بیوروکریسی کا دباو¿ قبول نہیں کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دوں گا۔وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ بجلی کے بلوں میں اضافہ اور اوور بلنگ کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔عوام کی طرف سے وزیراعظم کے اس بیان کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہوئے سکھ کا سانس لیا گیا مگر حکومت کے کل پرزوں کی طرف سے اس کے برعکس فیصلے کیے گئے۔
ہمارے حکمرانوں کی آجا کے تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ سیاست کی بجائے ریاست کو بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے اب تو ریاست بچ گئی ہے مگر کڑے فیصلے پھر بھی ہو رہے ہیں۔کڑے فیصلوں سے مراد ٹیکس لگاتے چلے جانااورخاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں نان سٹاپ اضافہ ہے۔ بجٹ ادھر منظور ہوا ا±دھر بجلی کی قیمت تیسرے روز پھر بڑھا دی گئی۔ کہا گیا کہ یہ آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ تھی۔ لوگ اسی شاک سے نہیں نکلے تھے کہ فی یونٹ سات روپے سے زائد کا مزید اضافہ بھی کر دیا گیا۔یہ سارے کڑے اور مشکل فیصلے عوام پر مسلط کئےجا رہے ہیں۔ اشرافیہ اپنے بارے بھی ایسے سخت فیصلے کرلے۔خود بھی تھوڑی سی قربانی دیدے تو عام آدمی کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں اس کا تذکرہ اقوام متحدہ میں بھی ہو رہا ہے۔یو این ڈیویلپمنٹ پروگرام کے وفد نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں اشرافیہ کی مراعات پر سالانہ 17 اعشاریہ چار ارب ڈالر بےجا خرچ ہوتے ہیں۔بہت سے سرکاری بڑوں کی ٹرانسپورٹ رہائش بجلی فون پانی،فضائی اور ریلوے کا سفر فری ہے اور پھر لاکھوں میں تنخواہیں بھی ہیں۔شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ناصر خان کھوسہ کی سربراہی میں حکومتی اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی سفارشات میں بتایا تھا کہ سالانہ ایک ٹریلین روپے یعنی ایک ہزار ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو آج بھی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
ایک طرف نیا ٹیرف متعارف کیا گیا ہے،دوسری طرف بجلی صارفین پر ایک ہزار تک فکسڈ چارجر کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا، جس کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوچکا ہے۔صنعتی صارفین کیلئے ماہانہ فکسڈ چارجز کو 184 فیصد بڑھایا گیا، کمرشل صارفین کیلئے ماہانہ فکسڈ چارجز میں 150 فیصد اضافہ ہوا جو 500 روپے سے بڑھ کر 1250 روپے ہو چکا، زرعی ٹیوب ویلز صارفین کیلئے ماہانہ فکسڈ چارجز میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔صنعتی اور کمرشل صارفین ایسے اضافے بلا چون وچراں برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ سارا کچھ آگے ٹرانسفر کر دینا ہوتا ہے جس کا اثر عام صارف پر پڑتا ہے۔
 300 یونٹ فری بجلی دینے کے دعوے کہاں گئے‘عوام کو مسلسل ریلیف دیئے جانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ عوامی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے بجلی کے نرخ جس بے دردی سے بڑھائے جا رہے ہیں‘ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اتحادی حکومت کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے‘ وہ اپنی مرضی سے آئے روز من مانے بجلی کے نرخ بڑھا رہی ہیں جن کا نہ حکومتی سطح پر کوئی نوٹس لیا جا رہا ہے اور نہ ازخود نوٹس لے کر عدالتیں ان کیخلاف کوئی کارروائی کر رہی ہیں۔ 
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تسلسل کیا یہیں پہ رک جائے گا ؟ آئی ایم ایف کے پروگرام کو آخری قرار دینے کا عہد کرنے والوں نے سات ارب ڈالر قرض کا آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق بھاری ٹیکس لگیں گے۔پاکستان میں خصوصی طور پر مالی معاملات میں آئی ایم ایف کی مداخلت حد سے بڑھ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ عوام کی قوت خرید پست ترین سطح تک گر چکی ہے۔ اسی وجہ سے جرائم میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے 
 عوام بدترین مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں جس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں ایک باپ نے قبیح فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی زندہ بیٹی کو دفن کر دیا۔ کئی شہروں میں مہنگی بجلی کیخلاف احتجاج اور مظاہرے جار ی ہیں جبکہ مہنگائی بجلی اور ناروا ٹیکسز کیخلاف 26 جولائی کو جماعت اسلامی نے بھی اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے‘اگر عوام سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔احتجاج کے ذریعے اپنا حق حاصل کرنے کا راستہ آزاد کشمیر کے لوگوں نے دکھا دیا ہے۔ ان حالات میں عوام کو مطمئن کرنا ضروری ہے تاکہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ای پیپر دی نیشن