غریب وسادہ رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
مولانا محمد علی جوہر اور حضرت علامہ اقبال کے شہہ پاروں میں دین اسلام کی پوری تاریخ پنہاں ہے۔ 10ذوالحج اور دس محرم الحرام کی عدیم المثال قربانیوں کو داستان اسلام سے منہا کر دیں تو دین متین کے تعارف کے لیے کوئی جاندار اور انمنٹ حوالہ نہیںملے گا۔میدان کربلا میں خدا کی رضا اور دین مبین کے تحفظ کے لیے جو چراغ نواسہ رسول نے اپنے خاندان اور اپنے جانثاروں کے لہو سے روشن کئے اس کی مثال صبح قیامت تک زمانہ اور اہل زمانہ دینے سے قاصر رہے گا۔ انسانیت ہر دس محرم کو 61 ہجری میں پیش آنے والے معرکہ کربلا کو یاد کرکے سیرت حسین سے حق ، سچ ' صداقت اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی روشنی اور طاقت پاتی رہے گی۔صدر جنرل اتحاد ومشائخ پاکستان و چیئرپرسن فضیلہ ٹرسٹ خواجہ پیر اکرم شاہ' سجادہ نشین دربار عالیہ نقشبندیہ خانقاء قمریہ پیر قاضی محمد صہیب ظفر اعوان' چانسلر اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی ڈاکٹر پروفیسر ظفر اقبال جلالی' چیئرمین صوفی فکر پاکستان ڈاکٹر پیر ظہیر عباس الرفاعی' چیئرمین رفیق حجاج کمیٹی پاکستان بابو عمران قریشی ' سینئر ممبر ضلعی امن کمیٹی وصدر ایپسیما تحصیل راولپنڈی راجہ محمد وسیم سیفی، چیئرمین ٹیپو سلطان فاؤنڈیشن طارق شہزاد چوہدری اور وائس چیئرمین مرکزی علماء کونسل پاکستان صاحب زادہ سمیع اللہ حسینی کا کہنا درست ہے کہ آج ہم اپنی زندگیوں میں اسوہ حسینی کو شامل کرلیں تو ہمارے انفرادی واجتماعی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ آج مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی صورت حال گواہی دے رہی ہیں کہ حریت پسندوں کی دلیری' برداشت اور استقامت کے پس پردہ والیٰ کربلا اور اہل کربلا کا کردار ہی ہے۔…
اسلام آباد میں نو محرم الحرام کو امام بارگاہ اثنا عشری جی/ سکس/ ٹو نزد میلوڈی سے مجلس عزا کے بعد مرکزی جلوس برآمد ہوتا ہے۔ یہ جلوس اپنے روایتی راستوں سے گزرتا ہے،لال کوارٹر پر نماز ظہرین ادا کی جاتی ہے۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے سروس اسٹاپ ،پولی کلینک سے گزرتا ہوا ،رات مسجد اثناعشری میں ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ راولپنڈی کا مرکزی جلوس دس محرم الحرام کو امام بارگاہ عاشق حسین نزد تیلی محلہ سے برآمد ہوتا ہے جو امام بارگاہ کرنل مقبول حسین واقع کالج روڈ پہنچتا ہے۔ یہاں مجلس عزا کے بعد یہ مرکزی جلوس آپ نے مختلف روایتی راستوں ٹرنک بازار، فوارہ چوک ،راجہ بازار پرانا قلعہ ،جامع مسجد روڈ سے ہوتا ہوا امام بارگاہ قدیمی پر پہنچ کر ختم ختم ہوتا ہے ،جہاں مجلس شام غریباں کا انعقاد ہوتا ہے۔ جلوس کی گزرگاہوں پر سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے محرم الحرام کی آمد سے پہلے ضلعی انتظامیہ جلوس کی گزر گاہوں کہ روٹ کے حوالے سے لائے عمل ترتیب دیتی ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے سیاسی سماجی اور دینی حلقے بھی اس حوالے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ عزاداری جلسوں کی حفاظت کیلئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں۔ پولیس کا باقاعدہ فلیگ مارچ ہوتا ہے۔ جلوس کو پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے حصار میں رکھا جاتا ہے۔ جلوس کے داخلی اور خارجی راستوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ نگرانی فضا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی جاری رہتی ہے۔
روز عاشو کی عقیدت واحترام اور کربلا کے مظلوم پیاسوں کی یاد میں باقاعدہ رسم سقائی ہوتی ہے۔ ہنگامی طبی امداد اور ڈسپنسری کے یونٹ جلوس کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔ لوگ شبیہ ذوالجناح کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے منات و نیاز پیش کرتے ہیں۔ ماتمی جلوس سینہ کوبی کرتے ہیں۔ نوحہ خان پارٹی سوزوگداز کی کیفیت میں رواں رہتے ہیں۔ امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی کے چیئرمین سید ساجد ہاشمی کے مطابق تمام مذاہب کے لوگ اس حوالے سے عاشورہ محرم پر مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔تمام مسالک کی مساجد میں عاشورہ کے روز خصوصی خطاب اور بیان کا اہتمام ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کے طول و عرض میں نویں اور دسویں محرم کے سلسلے میں مجلس عزا کے بعد عزاداری کے جلوس ، علم ،تعزیے اور شبیہ ذوالجناح برآمد ہوتے رہے۔ اس روایت میں لکھنوی، حیدرآبادی اور دکنی رنگ نمایاں رہا۔ جس طرح لکھنؤ میں رومی دروازہ، وکٹوریا سٹریٹ، سے عاشورہ کا جلوس نکل کر تال کٹورے بارگاہ پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح سب سے بڑے شہر کراچی میں مرکزی جلوس نشتر پارک سے برآمد ہو کر امام بارگاہ حسینیہ ایرانیان کھارادر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔لاہور میں مغلوں کی آمد کے بعد باقاعدہ عزاداری کی ابتداء ہوئی،عہد جہانگیری میں ملکہ نور جہاں نے ایرانی طرز پر لاہور میں عزاداری کی مجالس کی سرپرستی شروع کی۔لاہور میں امام بارگاہوں کے باقاعدہ قیام و نظامت کا سلسلہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے شروع ہوا۔ آج بھی روایتی طور پر نثار حویلی سے برآمد ہونے والے تعزیہ جلوس عزاداری کرتے ہوئے شہر کے مختلف راستوں سے ہو کر کربلا گامے شاہ پراختتام پذیر ہوتے ہیں۔ پشاور میں حسینیہ ہال سے مرکزی جلوس برآمد ہو کر اپنے مقررہ راستوں سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
بالکل اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد کے مرکزی جلوس نویں اور دسویں محرم الحرام کہ الگ الگ روز برآمد ہو کر اپنے روایتی راستوں سے گزر کر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ ماتمی جلسے کے سالاران وا عزاداران خانوادہ رسول کی مظلومیت اور مظالم یزید مردود و ملعون کو یاد کر کے ماتم اور سینہ کوبی کرتے ہیں۔ امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے راولپنڈی میں حسینیہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ ان ایام میںماہر باورچی نذر و نیاز کے پکوان کیلئے بے حد مصروف پائے جاتے ہیں۔گلی محلوں میں قرآن پاک کے سپارے تقسیم کیے جاتے تاکہ تمام اہل محلہ عاشورہ کے موقع پر تلاوت قرآن پاک کے ذریعے شہدائے کربلا کو ہدیہ ثواب پیش کریں۔ ان ایام میں ہمارے ہاں سماجی سطح پر مذہبی روا داری کیلئے شخصیات کا خصوصی کردار رہتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر اقبال جلالی
اس حوالے سے بات چیت میں اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اقبال جلالی کا کہنا ہے یکم محرم الحرام کی آمد ہمارے لئے امن ، وابستگی اور ایک دوسرے کے خیالات برداشت کرنے کا سبق ہے۔ شہدائے کربلا سے منسوب سیمینار اور تقاریب میں جہاں امام حسین کی سیرت پر روشنی ڈالی جاتی ہے وہاں شرکاء کے ذریعے سے پیغام حق عام لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے کہ ہم سب نے مل کر دین کی سربلندی کے لیے میدان عمل میں آنا ہے۔ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران امن و شانتی کے لیے یکے بعد دیگرے اجلاس منعقد کرتے ہیں جس میں مختلف مکاتبِ فکر کی نمائندہ شخصیات امن و محبت اور عقیدت کیلئے اپنے عہد کی تجدید کرتی ہیں۔راولپنڈی کے پانچ ستارہ ہوٹل میں منعقد حسینیہ کانفرنس سے خطاب میں بار بار شرکاء کی توجہ اتباع ِ سیرت امام عالی مقام کی طرف مبذول کروائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ظہیر عباس الرفاعی (صوفی فکر پاکستان )
ہماری عہد کی زندگی بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم سے گزری ہے۔ ہم نے راولپنڈی کی تاریخی روایات اور جدیدیت کی ہنگامہ خیزیوں کو بڑا قریب سے دیکھا ہے۔راولپنڈی میں فروعی اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی تعصبات کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا رہا، تو دشمن نے اندرونی انتشار پیدا کرکے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ یوں محرم الحرام ہو، عید میلاد النبی ہو، کوئی خصوصی دینی مجلس یا کانفرنس ہو، راولپنڈی کے لوگ مسلک سے بالاتر ہوکر اپنی روایت کے مطابق ان خصوصی نشستوں میں ایک دوسرے کو شریک کرتے ہیں۔ امام عالی مقام نے میدان کربلا میں جان قربان کرکے صبح قیامت تک اس پیغام کی شمع فروزاں کر دی کہ حق کا پرچم بلند رہے گا۔
خواجہ پیر اکرم شاہ( اتحاد ومشائخ پاکستان )
61ہجری میں سیّدنا امام حسین اور اْن کے ساتھیوں کی شہادت کا واقعہ پیش آیا جس سے اس دن کی عظمت اور درجات اور بھی زیادہ بڑھ گئے۔یزید کی تخت نشینی سے جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی تو حضرت امام حسین نے یزید کو خلیفہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔آپ کے علاوہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ۔عبد اللہ بن عمر۔اور عبد اللہ بن زبیر بھی اْن صحابہ کرام میں شامل تھے جنہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا۔جب حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھ جھڑپ میں یزیدی لشکر کا سپہ سالار مارا گیا تو اہل کوفہ نے امام عالی کو خلافت کا حقیقی حقدار سمجھ کر آپ کو خلافت کی دعوت دی اور آپ کا ساتھ دینے کیلئے خطوط لکھے۔ حضرت مسلم بن عقیل کو امام عالی مقامؓ نے معاملات کو سلجھانے کیلئے بھجوایا توابن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بے دردی سے شہید کرا دیا۔حضرت امام حسین ؓ نے روانگی سے پہلے مدینہ کی طرف رْخ مبارک کر کے عرض کی تھی۔یا رسو ل اللہ ! آپ کے نواسے کو خلافت کی ہر گز تمناء نہیں۔اْمت محمدیہ کو حق کی راہ پر قائم کرنا چاہتا ہوں اورآپ کی نظر کرم اور اللہ سے صبر و استقامت کا طلبگار ہوں۔
پیر قاضی محمد صہیب ظفر (دربار عالیہ نقشبندیہ خانقاء قمریہ )
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم ِ عاشورہ اسلام سے پہلے بھی ذی وقار دن تھا۔ کائنات میں تقریباً تمام اہم اْمور اسی دن کو وقوع پذیر ہوئے۔زمین و آسمان کی آفرنیش سے لے کر قیامت برپا ہونے تک کے تمام اْمور اسی دن طے پانے کے بارے میں ثبوت ملتے ہیں۔حضرت جبرئیل سمیت تمام ملائکہ کی پیدائش ،کرہ ارض کا پہلا دن ،زمین پر بارش کا پہلا قطرہ،بیشتر انبیاء و رسل کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بریت اور اعلیٰ مراتب پرفائزہونا یوم عاشورا کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے کی روایات ملتی ہیں۔
بابو عمران قریشی (چیئرمین رفیق حجاج کمیٹی )
خانوادہ رسول ؐ اور سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا حسین ابنِ ابی طالب کی میدان کربلا میں حق و باطل کے معرکے میں پیش کی جانے والی لازوال اور بے مثل قربانی کی یاد میں عاشورہ محرم کو تمام عالم اسلام میں ہر سال دینی عقیدت و احترام کے سوز و گداز کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ دین اسلام کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے سال کا آغاز بھی قربانی سے اور اختتام بھی قربانی سے مذکور و معمور ہے۔ وطن عزیز میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ علماء وذاکرین، اس حوالے سے مختلف خصوصی مجالس اور کانفرنسوں کے انعقاد میں واقعہ کربلا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیںاور آل نبی پر کربلا میں ڈھائے جانے والے ملعون یزید کے جبر و استبداد پر لعنت بھیج کر احیائے دین کیلئے شعور کو بیدار کرتے ہیں۔
صاحب زادہ سمیع اللہ حسینی(مرکزی علماء کونسل پاکستان )
محرم الحرام مظلوم کو حق کی روشنی دیتا رہے گا ،یہ ماہ حرمت صبر، امن ، بھائی چارے اور قربانیوں کی لازوال داستان ہے جس میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ اور اھلبیتؓ نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور امن کا درس دے کر خود شہادت کے اعلیٰ مقصد کو پا لیا۔
طارق شہزاد چوہدری (محقق، ادیب ،مورخ)
آج پاکستانی سماج میں جب برداشت کے جذبے کو دہشت گردی کے عفریت نے چاٹ لیا ہے اس کے باوجود اسلام کی سربلندی کیلئے حضرت امام حسین ؓ اوراہلبیتؓ کی اس لازوال قربانی اور داستان کربلا کا ذکر تاحشر جاری رہے گا۔
راجہ محمد وسیم سیفی( امن کمیٹی راولپنڈی کینٹ)
مسلمان اپنے پیارے نبی ؐ کی پیروی میں یوم عاشور کی نسبت سے روزہ رکھنے۔صدقہ خیرات کرنے اور بہتر سے بہتر کام کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔صحابہ کرام نے حضور اکرم ؐسے پوچھا کہ رمضان المبارک کے بعد کونسے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت زیادہ ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ محرم الحرام میں روزہ رکھنا زیادہ افضل ہے ۔