اتوار کی صبح اٹھ کر امریکی صدر بائیڈن کے ’’خللِ دماغ‘‘ سے اس کالم کا آغاز کرتے ہوئے میرے وہم وگماں میں یہ امکان دور دور تک موجود نہیں تھا کہ پیر کی صبح اٹھنے کے بعد لکھے کالم کا آغاز بھی ایک اور سابق امریکی صدر کے ذکر سے کرنا پڑے گا۔ جی ہاں ذکر ٹرمپ کا ہے جو ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچا ہے۔ اپنے معاشرے میں اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم بھڑکانے میں وہ کلیدی کردار کا حامل رہا ہے۔ 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج اس نے حقارت و ڈھٹائی سے رد کردئے تھے۔ اس کے جنونی حامیوں کے ایک بڑے گروہ نے ’’انتخاب چرانے‘‘ کے الزام کو دل وجان سے تسلیم کیا۔ 6جنوری 2021 کے روز واشنگٹن پہنچ گئے اور وہاں کی پارلیمان میں گھس کر انتخابی نتائج قبول کرنے کی رسم کو ہر صورت روکنے کی کوشش کی۔ قانون نافذ کرنے والوں کو کانگریس کے اراکین اور اس کی عمارت کے تحفظ کے لئے مشکل ترین مراحل کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنے مخالفین کے خلاف سخت ترین اور بسااوقات رکیک الفاظ استعمال کرنے کے عادی ٹرمپ نے لیکن خود پر ہوئے حملے کے بعد قابل ستائش ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اور اس کا خاندان تواتر سے سیکرٹ سروس کے اس عملے کا پرخلوص انداز میں شکریہ ادا کئے چلے جارہے ہیں جو سابق صدر کی حفاظت کو مامور تھا۔ علاوہ ازیں ٹرمپ نے بائیڈن کا وہ فون بھی وصول کیا جو امریکی صدر نے اس کی خیریت دریافت کرنے کیلئے کیا تھا۔
خود پر ہوئے قاتلانہ حملے سے بچ جانے کے بعد ٹرمپ کی جانب سے اپنائے رویے پر سنجیدہ غور لازمی ہے۔ وہ روایتی سیاستدان نہیں۔ رنگین مزاج کاروباری آدمی ہے جس نے ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اپنا نام اور چہرہ لوگوں سے متعارف کروایا۔ بالآخر 2016ء کا صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسے بطور صدارتی امیدوار سیاست دانوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت نے آخری لمحات تک سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ مگر نہایت ڈھٹائی سے میدان میں ڈٹا رہا اور بالآخر ہیلری کلنٹن جیسی کہنہ مشق سیاستدان کو شکست دے کر وائٹ ہائوس پہنچ گیا۔
نیویارک کے ایک کاروباری خاندان سے تعلق ر کھنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سفید فام لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو بہت پسند ہے۔ وہ اس کی ’’بدزبانی اور اکھڑپن‘‘ کو اپنے جذبات کی حقیقی ترجمانی محسوس کرتے ہیں۔ امریکہ کا عام (سفید فام آدمی )نہایت شدت سے یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ملک کی اشرافیہ اس کی مشکلات پر توجہ دینے کے بجائے معیشت کے نام نہاد ’’عالمی نظام‘‘ کو توانا تر بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ امریکہ کی بڑی کمپنیاں اپنے ہی ملک میں صنعتیں لگانے کے بجائے پہلے چین اور اب ویت نام،بھارت اور میکسیکو جیسے ممالک میں سستی اجرت پر میسر لیبر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے وہاں سرمایہ کاری پر توجہ دے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوتی۔ وہ سستی مزدوری پر ہر طرح کی مزدوری کو رضامند ہونے کی وجہ سے سفید فام امریکنوں کے لئے روزگار کے دروازے بند کررہے ہیں۔نام نہاد عالمی نظام کے خلاف عام امریکی (سفید فام) کے دل میں ابھرتی نفرت کوٹرمپ نے نہایت ہوشیاری سے استعمال کیا۔روایتی اور مشہور سیاستدانوں کو سخت الفاظ کے ذریعے ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلاتا رہا۔ بالآخر بات فقط روایتی اشرافیہ کے خلاف نفرت بھڑکانے تک ہی محدود نہ رہی۔ صدر منتخب ہونے کے لئے ٹرمپ نے عوام کو Magaکا نعرہ دیا۔ یہ Make America Great Againکا مخفف ہے۔ امریکہ کو دوبارہ ’’عظیم‘‘ بنانے کا ایک اہم ترین مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ملک افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں خواہ مخواہ کے پنگے نہ لے۔ خود کو دنیا میں ’’جمہوری اقدار‘‘ پھیلانے اور ان کی حفاظت کا ذمہ دار تصور نہ کرے۔ اپنے ملک کے ٹھوس حقائق پر توجہ دینے تک محدود رہے۔
’’میگا‘‘ نعرہ وسیع تر تناظر میں امریکہ کے عسکری اداروں اور ان کی ترجیحات پر بھی بے شمار سوالات اٹھاتا ہے۔ اس کی وجہ سے امریکہ کی روایتی اشرافیہ پریشانی محسوس کرتی۔ ٹرمپ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو امریکہ کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کا طاقتور نقاد بناکر پیش کررہا ہے۔ اپنے مداحین کو اس کی بدولت ایک ایسا’’انقلابی‘‘ محسوس ہوتا ہے جو ’’عالمی ایجنڈا‘‘ سیٹ کرنے والی امریکی ریاست اور اس کے دائمی اداروں کی افادیت پر بھی سوال اٹھارہا ہے۔
مذکورہ تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ خود پر ہوئے قاتلانہ حملے سے بچ جانے کے بعد اپنے حامیوں کو اس شبے کا اظہار کرتے ہوئے خطرناک حد تک مشتعل بناسکتا تھا کہ اس کے خلاف ہوئے حملے کی منصوبہ بندی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ نے کی تھی۔ اس کے بعد ایک مشتعل ہجوم سی آئی اے اور امریکی وزارت دفاع کی عمارتوں میں ویسے ہی گھسنے کی کوشش کرتا جیسے 6جنوری 2021ء کے دن امریکی کانگریس میں عمارت کے حوالے سے نظر آئی تھی۔ ٹرمپ نے مگر حیران کن ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اشتعال انگیزی سے گریز کیا۔
ٹرمپ کی جانب سے اختیار کردہ ذمہ دارانہ احتیاط کے باوجود اس پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد سازشی کہانیوں کا سیلاب پھوٹ پڑا ہے۔ بے شمار افراد ایک ایسی کہانی کو قابل اعتبار بنانے کا مواد بے چینی سے ڈھونڈ رہے ہیں جو عوام میں یہ تاثر پھیلائے کہ ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے ایک گروہ نے ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ اس کے لئے ایک 20برس کے نوجوان کی ’’ذہن سازی‘‘ ہوئی۔ وہ اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا تو اسے گرفتار کرنے کے بجائے گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ وہ زندہ بچ جاتا تو ’’اصل سازشیوں‘‘ کا سراغ لگانا آسان ہوجاتا۔
سازشی کہانیوں کے انبار کو بنیاد بناتے ہوئے ٹرمپ اپنے حامیوں کے جذبات بآسانی بھڑکاسکتا تھا۔ ابھی تک وہ مگرسیاسی قیادت سے متوقع صبر اور بردباری کا رویہ اختیار کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ وہ یہ رویہ اختیار نہ کرتاتو امریکہ بھر میں ٹرمپ کے حامی اپنے مخالفین سے منسوب عمارتوں کو یہ کالم لکھتے وقت بھی جلارہے ہوتے۔ اس کی بدولت امریکہ خوفناک خانہ جنگی کی لپیٹ میں گھرانظر آتا۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں کو ذمہ دار قیادت ہی انتشار،ابتری اور خانہ جنگیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ٹرمپ کے خود پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد اپنائے رویے سے ہماری سیاسی اعتبار سے مقبول قیادتوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔