خبر ہے کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، حکومت نے مخصوص نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، خبر یہ بھی ہے کہ حکومت نے سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، بانی پی ٹی عمران خان اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
یہ تمام خبریں حیران کن اور تشویشناک ہیں کیونکہ اس ساری مشق کے بعد عدم استحکام اور غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہو گا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی سیاسی جماعتوں اور جمہوری حکومتوں کی ناکامی ہوا کرتی ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے گذر رہا ہے ان حالات میں ایسے فیصلوں سے بے چینی، اضطراب اور عدم تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دینا چاہیے، کیا ایسے فیصلوں سے ملک کی معیشت مضبوط ہو سکتی ہے، کیا ایسے فیصلوں سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گا اگر نہیں تو پھر کون سی چیز ہے جو حکومتی اتحاد کو ایسے فیصلوں پر مجبور کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ان کا وزیر اعلیٰ ہے۔ وہاں کیا ردعمل آئے گا، پورے صوبے میں ایسی سیاسی سوچ کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں کیا یہ کسی نے سوچا ہے، مطلب کیسے آپ کسی سیاسی جماعت کو ایسے دیوار سے لگا سکتے ہیں۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ کہتے ہیں کہ نو مئی کو ملکی دفاع پر حملے کیے گئے، بانی پی ٹی آئی کا خاندان نو مئی واقعات میں ملوث تھا، بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود تھیں، قوم کو کہا جا رہا تھا کہ انقلاب برپا ہونے لگا ہے فوری اپنی اپنی لوکیشنز پر پہنچیں ۔ بانی پی ٹی آئی نے انتشار اور تشدد کی سیاست کو فروغ دیا، انہوں نے ملک کے دفاعی اداروں کو نقصان پہنچایا،ملک نے اگر ترقی کرنی ہے تو پاکستان اور تحریک انصاف ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
کیا یہ حکومت کے لیے لازم نہیں کہ اگر تحریک انصاف کے خلاف بالخصوص نو مئی کے احتجاج کے حوالے سے ثبوت و شواہد ہیں تو وہ قانونی راستہ اختیار کرے، کوئی شک نہیں کہ جو کوئی بھی ریاست سے ٹکرانے، قومی املاک کو نقصان پہنچانے، نوجوان نسل کو ملک کے خلاف بھڑکانے، دفاعی اداروں کو متنازع بنانے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے جیسے جرائم میں ملوث ہے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کام کے لیے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے جرائم میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی کی سیاسی وابستگی کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ جب حکومت سپریم کورٹ جائے گی روزانہ کی بنیاد پر عدالت سے آنے والی خبریں اور ان کیسز میں عدالتی کارروائی ہر جگہ رپورٹ ہو گی یقینی طور پر ایک غیر یقینی کی فضا پیدا ہو گی اور یہی غیر یقینی کی فضا پاکستان کی ڈولتی، ڈوبتی معیشت کے لیے زہر ہے۔ آئندہ چند ماہ ملکی سیاست میں بہت اہم ہیں اور یہ کہنا مشکل نہیں ہو گا کہ ستمبر اکتوبر یا اس کے بعد ایک مرتبہ پھر لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا وقت گذار چکی ہیں کوئی بھی جماعت ملک کو بحران سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، کوئی جماعت ملکی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ صوبائی اور علاقائی سیاسی جماعتیں بھی مختلف وقتوں میں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں سو شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے حکومت کے مزے نہیں لیے۔ ان سب جماعتوں نے مل کر ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ شاید ایک مرتبہ پھر ہم مارشل لاء کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر اب ایسا کچھ ہوتا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہو گی۔ کیونکہ اگر ملک میں ہنگامے شروع ہوئے، لوگ سڑکوں پر آئے تو پھر کیا راستہ بچے گا۔ یہی وہ سوال ہے جو آج سیاسی قیادت سے ہونا چاہیے۔
دوسری طرف چند روز گذرے ہیں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں گے لیکن کسی صورت دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کا یہ بیان بنیادی طور پر ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے تھا، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے جہاں حکومت نئے ٹیکس لگا رہی ہے اس معاملے میں میاں شہباز شریف پر کوئی دباؤ ڈال رہا ہے یا پھر وہ کسی اور دباؤ کا شکار ہیں۔ ویسے تو حافظ حمد اللہ نے "باس" کے دباؤ کا بھی ذکر کیا ہے شاید جمعیت علماء اسلام یہ چاہتی ہے کہ "باس" دباؤ کے لیے بھی صرف مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کا انتخاب کریں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے بہرحال جے یو آئی کو دباؤ کے سیاسی پہلوؤں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ ٹیکس چھوٹ بارے وزیراعظم پر سیاسی دباؤ ہو، عین ممکن ہے حکومت مالداروں کر گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہو، عین ممکن ہے کہ بعض بااثر اس گھیرے میں آتے ہوں ویسے بظاہر ابھی تک یہ احساس نہیں ہو رہا کہ حکومت مالداروں سے ان کی آمدن کے حساب سے ٹیکس لے رہی ہے۔ اب تک تو صرف کمزور تنخواہ دار اور اس طبقے کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے جو ہر طرح سے حکومت کے قابو میں ہے اس پر ہی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کاش حکومت ٹیکس نظام کو بہتر بنائے، تنخواہ دار نجانے کتنی جگہ ٹیکس ادا کرتا ہے، آدھی سے زیادہ تنخواہ تو ٹیکسوں میں ہی چلی جاتی ہے۔ جس حساب سے بجلی مہنگی ہو رہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ادویات مہنگی ہو رہی ہیں، گیس مہنگی ہو رہی ہے، حتی کہ پانی کے بل میں بھی حیران کن اور تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بچوں کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات، کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، مطلب کوئی ایسی چیز نہیں جو آسمانوں سے باتیں نہ کر رہی ہو ہر جگہ ایک جیسے ہی حالات ہیں۔ عام آدمی پر دباؤ اس کی حیثیت سے زیادہ ڈالا جا رہا ہے۔ کاش کہ حکومت ٹیکس کے نظام میں فوری اصلاحات کرے حالیہ اقدامات سے تو مالی اعتبار سے کمزور طبقہ مزید کمزور ہو رہا ہے اور مالدار طبقہ مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ جہاں تک تعلق وزیراعظم میاں شہباز شریف کے مستعفی ہونے کے بیان کا ہے تو انہوں نے ایف بی آر افسران کو دوٹوک بتایا "استعفیٰ دے دوں گا مگر دباؤ میں نہیں آؤں گا اور ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔ کوئی سفارش، ذاتی پسند نا پسند نہیں، قومی مفاد سب سے اوپر ہے۔چیئرمین ایف بی آر نے ڈیجیٹلائزیشن پر سرپرائز دیا، تین ماہ پہلے بتادیتے تو سوچتے غیر ملکی فرم میکانزی کو لانا ہے یا نہیں؟ اب بھی کوئی سرپرائز ہے تو دے دیں کوئی ایکشن نہیں لوں گا لیکن اس کے بعد چھپن چھپائی برداشت نہیں کروں گا۔"
پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے معاملے میں حکومت کو کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو ڈٹ جانا چاہیے، عوام دوست اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، بڑے بڑے سرمایہ کاروں، کارخانوں اور بڑے بڑے کاروبار کرنے والوں کی پروڈکشن پر ٹیکس لگایا جائے، جی ایس ٹی کو یقینی بنایا جائے کہ وہ حکومت کے پاس جائے گا، ٹیکس آمدن اور ٹیکس کہاں خرچ ہوتا ہے یہ بھی ہر شہری کے علم میں ہونا چاہیے، کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ ٹیکس لینا چاہیے لیکن اس کے لیے لوگوں کو ٹیکس دینے کے قابل بھی بنانا چاہیے جو ٹیکس دینے کے قابل ہیں ان سے ہر حال میں ٹیکس لینا چاہیے۔ اربوں کے قرض معاف کرنے پر پابندی ہونی چاہیے، قومی خزانے سے قرض لینے والوں سے ساری رقم واپس لینی چاہیے۔ قوم کے ساتھ یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔ اگر حکومت کو کہیں سے مالداروں سے ٹیکس کے معاملے میں دباؤ ہے تو اسے واضح کرنا چاہیے۔
رانا ثنااللہ نے میاں شہباز شریف کی جانب سے استعفے والی بات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے ٹیکس کے معاملے پر استعفے کی بات کی تھی اس حوالے سے بعض جگہوں سے دباو ہے۔ حکومت اس دباؤ کا ناصرف مقابلہ کرے بلکہ اسے ختم کرے اور عام پاکستانی کے لیے آسانی پیدا کرے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام "حْسین
اے میرے سر بریدہ
بدن دریدہ
سدا تیرا نام برگزیدہ
میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے
دشمنوں کے نرغے میں
تیغ در دست دیکھتا ھْوں
میں دیکھتا ھْوں
کہ تیرے سارے رفیق
سب ھمنوا
سبھی جانفروش
اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ھیں
گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ھیں
ھوائے جانکاہ کے بگولے
چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ھیں
مسافرانِ رہِ وفا ، لٹ لٹا چکے ھیں
اور اب فقط تْو
زمین کے اس شفق کدے میں
ستار صبح کی طرح
روشنی کا پرچم لیے کھڑا ھے
یہ ایک منظر نہیں ھے
ایک داستاں کا حصہ نہیں ھے
ایک واقعہ نہیں ھے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رھی ھے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رھی ھے
میں آج اِس کربلا میں
بے آبرو ، نگوں سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ھْوں
جہاں سے میرا عظیم ھادی
حسین کل سرخرو گیا ھے
میں جاں بچا کر
فنا کے دلدل میں جاں بلب ھْوں
زمین اور آسمان کے عزّ و فخر
سارے حرام مجھ پر
وہ جاں لٹا کر
منار عرش چْھو گیا ھے
سلام اْس پر
سلام اْس پر