لیکن سچ تو یہ ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لئے انسانی خون کا عطیہ بہت اہمیت رکھتا ہے‘ خوش قسمتی سے پاکستانی اس عظیم انسانی جذبے سے بھرپور ہیں لیکن بدقسمتی سے نیچے کا عملہ خون کا تجزیہ کئے بغیر خون نکال لیتا ہے اور اسے منتقل بھی کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے المناک واقعات ہو چکے ہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان کا محکمہ صحت اس طرف کبھی کبھی توجہ دیتا ہے لیکن اس مہم پر کبھی اتنے پیسے بھی خرچ نہیں کئے گئے جتنے ڈینگی بخار پر خرچ کئے جاتے ہیں۔
ایک دن ڈاکٹر شہریار کے پاس بیٹھا تھا کہ پی آئی سی میلہ سے ایک ڈاکٹر آیا اور بتایا کہ تقریباً ایک سو پانچ مریضوں کا خون ٹیسٹ کیا ہے جن میں سے تینتیس افراد ہیپا ٹائٹس کے کیریر ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں جو چیف جسٹس افتخار نے جیلوں میں ڈاکٹری ٹیسٹ کا حکم دیا تو بے شمار مریضوں کے خون میں متعدی امراض کے جراثیم ملے۔
انسانیت کی فلاح اور بقاء کے لئے خون کا عطیہ بہترین تحفہ ہے اور ایک تندرست آدمی تین ماہ میں ایک بار خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ وقت پڑنے پر الگ بات ہے کہ جب اس شخص کو خود خون کی ضرورت پڑے تو ہلال احمر جیسے ادارے بھی منفی جواب دیں اس لئے لاہور میں ایک بڑے اور اعلیٰ معیار کے بلڈ بنک کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔