سوات میں حساس ادارے کافی عرصہ سے سرگرم عمل تھے۔ مگر ان کی اطلاعات اتنی موثر نہیں تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاسکتا بلکہ حساس اداروں کی ناکامی واضع نظر آ رہی ہے۔ چند ہزار جنگجو طالبان کے بارے میں ہمارا کوئی بھی حساس ادارہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کرسکا۔ دوسری طرف جس طریقہ سے فوجی کارروائی کا آغاز ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کارروائی کیلئے فوج کے پاس تیاری تو تھی اور وہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ علاقہ میں کارروائی کیلئے تیار تھیں۔ مگر ان لوگوں کے پاس مشتبہ طالبان کے بارے میں مکمل اطلاعات کا فقدان تھا۔ اس ہی صورت حال میں پاکستان کے مہربان اور حلیف ملک امریکہ نے پاکستان کی ملٹری کے اہم ادارے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ وہ اب بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان کی سرگرمیوں کو نظرانداز کر رہا ہے۔ اس بات پر پاکستانی فوج کا کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مگر صدر پاکستان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا اہم حیثیت میں مشاورت کیلئے ساتھ تھے۔ امریکہ میں جنرل احمد شجاع پاشا کی مصروفیات خاصی معنی خیز رہیں۔بلکہ پاکستان کے سیاسی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی امریکی دبائو پر شروع کی گئی ہے۔ چند ہزار شورش پسند طالبان کیلئے 30لاکھ عوام کو دربدر کرنا ضروری تھا اور ایسی کارروائی ہنگامی طور پر نہیں ہوسکتی بلکہ اس کارروائی کیلئے مکمل تیاری ہوتی ہے اور فوج اس معاملہ میں مکمل تیاری کے بعد ہی حرکت میں آتی۔ کیااس منصوبہ کے بارے میں سرکار کو اعتماد میں لیا گیا یا زردا ری سرکار نے امریکہ کو یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ فوج ہی ان کے منصوبہ پر عمل کرے گی۔کیا اس کارروائی سے طالبان ختم ہو جائیں گے اور عوام کو سکون ملے گا۔ مگر اب تک کی کارروائی سے زیادہ کامیابی نظر نہیں آرہی بلکہ سوات کے دربدرعوام اپنے وطن میں بے گھر ہوگئے ہیں۔ حکومت کی مداد ان کی مکمل دادرسی نہیں کر رہی۔ یہ صورت حال امن کے حوالہ سے تشویش ناک ہے۔
فوج کو جلد از جلد سوات میں اپنی کارروائی مکمل کرنی ضروری ہے اور تمام علاقہ کی ناکہ بندی کرکے عوام کو واپسی کی سہولت مہیا کرنے اور مقامی لوگوں پر اعتماد کرنے اور جو لوگ اس وقت اس علاقہ میں ہیں ان کی مدد کرنے اور کوئی ایسی کارروائی نہ کرنے جس سے یہ تاثر ملے کہ فوج پاکستان کی نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے۔