امیر نواز نیازی ۔۔۔
”ہائے مہنگائی “ کے عنون سے ہمارا کالم اخبار مےں چھپا تو اےسے لگا جےسے ہم نے قارئےن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دےا ہو۔ بہت سے دوستوں نے جہاں کالم کو پذےرائی بخشی وہاں اپنے اپنے دکھ بھرے تبصروں اور چشم دےد تذکروں سے بھی آگاہ کےا تو کچھ دل جلوں کے جلے دلوں سے نکلنے والی آہےں اور حکومت وقت کے لئے ان کی بددعائےں ہم تک پہنچےں تو ہم اےک دم مغموم بلکہ دم بخود ہوکر رہ گئے تو دل مےں خےال آےا کہ ہمارے حکمران دےوار پر لکھا نہےں پڑھ سکتے تو کاش وہ اخباروں مےں چھپنے والی اےسی آہ و بکا کو پڑھ سُن لےں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول ہوجانے اور وہ اس ضمن مےں کچھ کرسکےں۔ ورنہ ہمےں ڈر ہے آنے والا وقت ان کے لئے بہت سی حشر سامانےاں لے کر آنے والا ہے۔ہم نے اپنے کالم مےں اےوب خان کے زمانے میں ملک مےں زراعت کی ترقی کا جو ذکر کےا تھا اس کے حوالے سے ہمارے اےک زرعی انجےنئر دوست نے کہا کہ ان کا محکمہ اےگری کلچرل انجےنئرنگ ڈےپارٹمنٹ کے نام سے اسی زمانے مےں وجود مےں آےا تھا تو محکمہ نے انہی ابتدائی سالوں مےں زراعت کے شعبوں مےں بے تحاشا ترقےاتی کام کئے کہ زراعت مےں انجےنئرنگ متعارف کرانے کے علاوہ وہ پبلک سےکٹر مےں نجی زمےنوں پر ٹےوب وےل لگانے اور بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے وسیع بنجر، غیر آباد اور ناہموار زمینوں کو ہموار کر کے قابل کاشت بنانا ان کے دائرہ کار میں تھا تو انہوں نے دن رات کی محنت سے آبادکاری کے وہ کارنامے انجام دئےے کہ ہر طرف کھےت اور کھےتےاں لہلہاتی نظرآنے لگےں نئی نئی فصلےں متعارف ہوئےں فی اےکٹر پےداوار بڑھی تو کسان اےک گونہ آسودگی اورخوش حالی کی طرف آگے سے آگے بڑھتا نظرآےا تو دوسرے ممالک نے بھی اس کی تعرےف بلکہ تقلےد کی، بھارت نے ہمےں دےکھ کر اپنے ملک مےں اےسے منصوبوں کا آغاز کےا تو ہم جہاں اےک سطح پر بےج کر جمود کا شکار ہوگئے وہ برابر لگا رہا اور پھر ہم سے بھی آگے نکل گےا۔ اسرائےل نے بھی انہی وسےع بنجر بے آب وگیاہ صحراو¿ں کو ہموار اور آباد کر کے سبزہ وگل مےں تبدےل کر دےا اور اب وہ ان علاقوں مےں زرعی اجناس اور پھل بالخصوص سٹرس پےدا کر رہا ہے اور وہ انہےں برآمد کرکے کثےر زرمبادلہ حاصل کر رہا ہے اور اس کا سٹرس اب دنےا بھر مےں اس کی پہچان بنا ہوا ہے لےکن ہماری بدقسمتی ےہاں ےہ ٹھہری کہ ہم اےک اچھی اڑان کے بعد مسلسل تنزلی کی طرف لڑھکتے چلے گئے اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے حسب رواےت اپنی ترجےحات ہی بدل لےں تو ہماری ےہ ترقی اور زراعت بھی روبہ زوال ہونا شروع ہوگئےں، آبی ذخائر اور زرعی زمےنوں کے رقبے آگے بڑھنے کے بجائے وہےں کے وہےں منجمد ہو کر رہ گئے بلکہ دن بدن سکڑتے چلے گئے جبکہ ملکی آبادی سال بہ سال آگے بڑھتی چلی گئی زرعی وسائل محدود سے معدوم ہوتے چلے گئے اےگری کلچرل انجےئرنگ کا محکمہ جہاں سرکاری خرچ پر نجی زمےنوں کو ہموار کر رہا تھا کسانوں سے اس کی اُجرت لےنے لگا اس کے لئے حکومت کی طرف سے سبسڈی تو دی گئی لےکن کا م کی وسعت کو محدود کر دےا گےا اور محکمہ کو اس کام کے لئے دئےے جانے والے فنڈز بتدرےج کم سے کم ہوتے چلے گئے اور پھر اب ےہ وقت بھی آےا کہ موجودہ حکومت کے دور مےں پچھلے دو سالوں سے محکمہ کو کوئی فنڈز ہی نہےں ملے اور محکمہ کی مشےنری اور بلڈوزر جہاں اور جےسے تھے وہےں کھڑے کر دئےے گئے تو اےسے مےں ملک ملک گرانی اور قحط جےسی صورت حال پےدا نہ ہو تو کےا ہے۔ خےال کےجئے ! اےوب خان کے زمانے مےں ہم نے زراعت کے شعبہ مےں جس ترقی کا آغاز کےا تھا وہ اسی رفتار اور مقدار سے جاری رہتی تو ہم کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہوتے مگر افسوس ۔۔ ےوں نہ تھا ہم نے فقط چاہا تھا ےوں ہو جائے۔اےوب خان کے زمانے سے لے کر اب تک ہماری آبادی تقرےباً چار پانچ گنا ہو چکی ہے جبکہ ہمارے زرعی وسائل اور زمےنوں کی وسعت اور صلاحےت وہےںکی وہےں کھڑی ہے اور صد حےف کہ آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہےں کہ ہم اپنی خوراک جےسی بنےادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے باہر سے اجناس منگوانے پر مجبور ہےں اور افسوس کی بات ےہ بھی ہے کہ ہم جو دنےا کے اےک بہترےن زرعی ملک کے مالک ہےں آج اےک تازہ ترےن عالمی سروے کے مطابق ےہاں 46 فےصد لوگوں کو پےٹ بھر کر روٹی مےسر نہےں ہو رہی تو اقبال نے بھی شاےد اےسے ہی کسی موقع کے لئے کہا ہوگا
جس کھےت سے دہقان کو مےسر نہ ہو روزی
اس کھےت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اس شعر مےں لفظ ” جلَا“ کو”جِلا “ پڑھا جائے تو شعر کے معنی ہی حےران کن انداز مےں بدل بلکہ الٹ جاتے ہےں ۔ ےعنی ہر اس کھےت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ ےعنی اسے پانی کھاد اورتوانائی مہےا کرو۔ اور ےہی بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ مےں آ جائے تو ہماری کایا ہی پلٹی جا سکتی ہے اور حکومت وہ اپنی کوتاہےوں اور زےاں کارےوں کا ادراک کر لے اور اس ملک کی زراعت کو ترقی ےافتہ سطح پر لے آئے تو کوئی وجہ نہےں کہ ہمارا شمار دنےا کے خوش حال ملکوں مےں نہ ہو لےکن سوچتے ہےں اےسا کرے کون؟ حکومت اپنے کئے اور NRO کے دےے بکھےڑوں سے نجات حاصل کر سکے تو اےسا کچھ سوچ سکے، اور اب تو وہ اپنی حکمرانی کی آدھی میعاد گزار چکی ہے اور اب جب اس کا کاو¿نٹ ڈاو¿ن شروع ہو چکا ہے اور وہ حےران پرےشان، بے بس اور مجبور تباہی کا ہر منظر آگے سے آگے بڑھتا دےکھے چلی جا رہی ہے تو باقی وقت مےں کون سا تےر مار لے گی۔ تو اےسے مےں ہم بھی دعائے خےر کے علاوہ اس کے حق مےں اور کےا کہہ سکتے ہےں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور پاکستان کو اپنی امان مےں رکھے۔ آمےن۔
”ہائے مہنگائی “ کے عنون سے ہمارا کالم اخبار مےں چھپا تو اےسے لگا جےسے ہم نے قارئےن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دےا ہو۔ بہت سے دوستوں نے جہاں کالم کو پذےرائی بخشی وہاں اپنے اپنے دکھ بھرے تبصروں اور چشم دےد تذکروں سے بھی آگاہ کےا تو کچھ دل جلوں کے جلے دلوں سے نکلنے والی آہےں اور حکومت وقت کے لئے ان کی بددعائےں ہم تک پہنچےں تو ہم اےک دم مغموم بلکہ دم بخود ہوکر رہ گئے تو دل مےں خےال آےا کہ ہمارے حکمران دےوار پر لکھا نہےں پڑھ سکتے تو کاش وہ اخباروں مےں چھپنے والی اےسی آہ و بکا کو پڑھ سُن لےں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول ہوجانے اور وہ اس ضمن مےں کچھ کرسکےں۔ ورنہ ہمےں ڈر ہے آنے والا وقت ان کے لئے بہت سی حشر سامانےاں لے کر آنے والا ہے۔ہم نے اپنے کالم مےں اےوب خان کے زمانے میں ملک مےں زراعت کی ترقی کا جو ذکر کےا تھا اس کے حوالے سے ہمارے اےک زرعی انجےنئر دوست نے کہا کہ ان کا محکمہ اےگری کلچرل انجےنئرنگ ڈےپارٹمنٹ کے نام سے اسی زمانے مےں وجود مےں آےا تھا تو محکمہ نے انہی ابتدائی سالوں مےں زراعت کے شعبوں مےں بے تحاشا ترقےاتی کام کئے کہ زراعت مےں انجےنئرنگ متعارف کرانے کے علاوہ وہ پبلک سےکٹر مےں نجی زمےنوں پر ٹےوب وےل لگانے اور بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے وسیع بنجر، غیر آباد اور ناہموار زمینوں کو ہموار کر کے قابل کاشت بنانا ان کے دائرہ کار میں تھا تو انہوں نے دن رات کی محنت سے آبادکاری کے وہ کارنامے انجام دئےے کہ ہر طرف کھےت اور کھےتےاں لہلہاتی نظرآنے لگےں نئی نئی فصلےں متعارف ہوئےں فی اےکٹر پےداوار بڑھی تو کسان اےک گونہ آسودگی اورخوش حالی کی طرف آگے سے آگے بڑھتا نظرآےا تو دوسرے ممالک نے بھی اس کی تعرےف بلکہ تقلےد کی، بھارت نے ہمےں دےکھ کر اپنے ملک مےں اےسے منصوبوں کا آغاز کےا تو ہم جہاں اےک سطح پر بےج کر جمود کا شکار ہوگئے وہ برابر لگا رہا اور پھر ہم سے بھی آگے نکل گےا۔ اسرائےل نے بھی انہی وسےع بنجر بے آب وگیاہ صحراو¿ں کو ہموار اور آباد کر کے سبزہ وگل مےں تبدےل کر دےا اور اب وہ ان علاقوں مےں زرعی اجناس اور پھل بالخصوص سٹرس پےدا کر رہا ہے اور وہ انہےں برآمد کرکے کثےر زرمبادلہ حاصل کر رہا ہے اور اس کا سٹرس اب دنےا بھر مےں اس کی پہچان بنا ہوا ہے لےکن ہماری بدقسمتی ےہاں ےہ ٹھہری کہ ہم اےک اچھی اڑان کے بعد مسلسل تنزلی کی طرف لڑھکتے چلے گئے اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے حسب رواےت اپنی ترجےحات ہی بدل لےں تو ہماری ےہ ترقی اور زراعت بھی روبہ زوال ہونا شروع ہوگئےں، آبی ذخائر اور زرعی زمےنوں کے رقبے آگے بڑھنے کے بجائے وہےں کے وہےں منجمد ہو کر رہ گئے بلکہ دن بدن سکڑتے چلے گئے جبکہ ملکی آبادی سال بہ سال آگے بڑھتی چلی گئی زرعی وسائل محدود سے معدوم ہوتے چلے گئے اےگری کلچرل انجےئرنگ کا محکمہ جہاں سرکاری خرچ پر نجی زمےنوں کو ہموار کر رہا تھا کسانوں سے اس کی اُجرت لےنے لگا اس کے لئے حکومت کی طرف سے سبسڈی تو دی گئی لےکن کا م کی وسعت کو محدود کر دےا گےا اور محکمہ کو اس کام کے لئے دئےے جانے والے فنڈز بتدرےج کم سے کم ہوتے چلے گئے اور پھر اب ےہ وقت بھی آےا کہ موجودہ حکومت کے دور مےں پچھلے دو سالوں سے محکمہ کو کوئی فنڈز ہی نہےں ملے اور محکمہ کی مشےنری اور بلڈوزر جہاں اور جےسے تھے وہےں کھڑے کر دئےے گئے تو اےسے مےں ملک ملک گرانی اور قحط جےسی صورت حال پےدا نہ ہو تو کےا ہے۔ خےال کےجئے ! اےوب خان کے زمانے مےں ہم نے زراعت کے شعبہ مےں جس ترقی کا آغاز کےا تھا وہ اسی رفتار اور مقدار سے جاری رہتی تو ہم کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہوتے مگر افسوس ۔۔ ےوں نہ تھا ہم نے فقط چاہا تھا ےوں ہو جائے۔اےوب خان کے زمانے سے لے کر اب تک ہماری آبادی تقرےباً چار پانچ گنا ہو چکی ہے جبکہ ہمارے زرعی وسائل اور زمےنوں کی وسعت اور صلاحےت وہےںکی وہےں کھڑی ہے اور صد حےف کہ آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہےں کہ ہم اپنی خوراک جےسی بنےادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے باہر سے اجناس منگوانے پر مجبور ہےں اور افسوس کی بات ےہ بھی ہے کہ ہم جو دنےا کے اےک بہترےن زرعی ملک کے مالک ہےں آج اےک تازہ ترےن عالمی سروے کے مطابق ےہاں 46 فےصد لوگوں کو پےٹ بھر کر روٹی مےسر نہےں ہو رہی تو اقبال نے بھی شاےد اےسے ہی کسی موقع کے لئے کہا ہوگا
جس کھےت سے دہقان کو مےسر نہ ہو روزی
اس کھےت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اس شعر مےں لفظ ” جلَا“ کو”جِلا “ پڑھا جائے تو شعر کے معنی ہی حےران کن انداز مےں بدل بلکہ الٹ جاتے ہےں ۔ ےعنی ہر اس کھےت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ ےعنی اسے پانی کھاد اورتوانائی مہےا کرو۔ اور ےہی بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ مےں آ جائے تو ہماری کایا ہی پلٹی جا سکتی ہے اور حکومت وہ اپنی کوتاہےوں اور زےاں کارےوں کا ادراک کر لے اور اس ملک کی زراعت کو ترقی ےافتہ سطح پر لے آئے تو کوئی وجہ نہےں کہ ہمارا شمار دنےا کے خوش حال ملکوں مےں نہ ہو لےکن سوچتے ہےں اےسا کرے کون؟ حکومت اپنے کئے اور NRO کے دےے بکھےڑوں سے نجات حاصل کر سکے تو اےسا کچھ سوچ سکے، اور اب تو وہ اپنی حکمرانی کی آدھی میعاد گزار چکی ہے اور اب جب اس کا کاو¿نٹ ڈاو¿ن شروع ہو چکا ہے اور وہ حےران پرےشان، بے بس اور مجبور تباہی کا ہر منظر آگے سے آگے بڑھتا دےکھے چلی جا رہی ہے تو باقی وقت مےں کون سا تےر مار لے گی۔ تو اےسے مےں ہم بھی دعائے خےر کے علاوہ اس کے حق مےں اور کےا کہہ سکتے ہےں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور پاکستان کو اپنی امان مےں رکھے۔ آمےن۔