ہزار بار بشویم دہن زِ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست
ہزار کیا لاکھ بار بھی منہ کو مشک و گلاب سے دھویا جائے پھر بھی اس معطر پاکیزہ ہستی کا نام لینا ادب کے تقاضوں کے خلاف ہی ہو گا اس ہستی کے اوجِ کمال کا ہمسر کون ہو گا جو خدا کے بعد بزرگ و برتر ہستی ہے جس کے لئے جان و مال‘ اولاد اور ماں باپ اس کے قدموں پر نچھاور کرنا ادنی ترین عمل اور اعلیٰ ترین سعادت‘ محبت و عقیدت کا اظہار اس کے قدموں کی خاک کا تو ٹھکانہ کیا اس کی گلی کی خاک بھی ہر مسلمان کےلئے آنکھ کا سرمہ ہے اگر ایسی بلند و بالا ہستی کے حوالے سے کتاب کی ایک ایک سطر کا ترجمہ باوضو ہو کر کیا گیا تو حق یہی بنتا ہے میرے بچپن کے دوست سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ہائی کورٹ کے ایک سابق محترم جج نے اس کتاب کا ترجمہ جس محبت و عقیدت سے کیا یہ بڑی سعادت سمیٹنے والی بات ہے۔ یہ دراصل اسلامیہ کالج لاہور کے شعبہ اسلامیات کے سابق اسسٹنٹ پروفیسر ظفر علی قریشی نے ”قابل قدر“ تحقیق کے بعد ”امہات المومنینؓ اور متشرقین“ انگریزی زبان میں تصنیف کی جسے دو متذکرہ بالا دوستوں نے اردو کے قالب میں ڈھالا اور بلاشبہ یہ اخلاصِ نیت ہی ہے کہ بطور مترجم اپنے نام شامل کتاب کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ اسی کتاب میں جہاں متشرقین کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ وہاں خود یورپی عیسائی متشرقین اور دانشوروں اور مفکروں کے اعتراضات بھی ہیں جو کتاب کی نمایاں انفرادیت ہے ولی ڈیورنیٹ نے ”The age of Faith“ گستاف ویل نے ”Histary of Islamic peoples“ میں متعصب خاتون نقاد نابیا ایبٹ نے Asiha the beloved M میں دیگر تعصب کا شکار مصنفین اور سکالرز نے اسلام دشمنی‘ تعصب اور بدنیتی کی بنیاد پر جھوٹے الزامات لگائے اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا وہاں متوازن انداز فکر رکھنے والے عیسائی مصنفین مثلاً ڈاکٹری اون نیما نے Unive rsal jewish encyelopediaمیں فرانسیسی سکالر ارنسٹ‘ مینان‘ تھامس کارلائل‘ سٹینلے لین لیول اور دیگر ام المومنین حضرت خدیجہؓ سے آپ کی لازوال محبت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ازدواجی زندگی کے 26سال تک آپ نے کسی اور سے شادی نہیں کی 25سال سے 50سال تک عرصہ جس میں کوئی انسان ازدواجی زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتا ہے وہ عرصہ صرف ایک ہی اہلیہ محترمہ کے ساتھ گزرتا ہے بعد میں ہونے والی شادیوں کے حوالے سے عیسائی مصنفین نے ان کی وجوہ سیاسی اور انسانی ہمدردی قرار دیا ہے امہات المومنینؓ میں صرف عائشہؓ اور حضرت ماریہؓ کنواری تھیں حضرت عائشہؓ سے شادی سب سے زیادہ وفادار ساتھی حضرت ابوبکرؓ سے قربت کو مزید مستحکم کر دیا جبکہ حضرت ماریہؓ جنہیں مصر کے بادشاہ نے آپ کو بطور تحفہ بھیجا تھا ان سے آپ کی شادی سے شاہ مصر بے حد متاثر ہوا اور مصر کے تعلقات بہت اچھے ہو گئے دیگر تمام امہات المومنینؓ بیوہ یا مطلقہ تھیں ان میں سے بعض کی دو‘ دو تین‘ تین بار شادیاں ہو چکی تھیں ان شادیوں نے مطلقہ اور بیوہ خواتین کےلئے سماجی تحفظ اور توقیر کی راہ ہموار کر دی۔ کتاب میں ان تمام شادیوں کا پس منظر اور سیاسی اثرات و فوائد آپ سے پہلے ہونے والی شادیوں‘ نجی زندگی‘ عادات و اطوار اور زہد و عبادت کے پہلو¶ں کو اجاگر کیا گیا ہے کتاب کی جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اگرچہ امہات المومنینؓ کے حوالے سے مگر اس میں تمام غزوات و سرایا جات کی مختصر تاریخ انعقاد کی تاریخیں‘ جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا اور عیسائی و یہودی متشرقین کی سوانح عمری کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جن عیسائی‘ یہودی اور ہندو مصنفین نے آپ کی شادیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ان تینوں مذاہب میں رائج کثیر الازواجیت سے خود ان ہی کی کتابوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے مثلاً ہارپر کی بائبل ڈکشنری کے مطابق عہد نامہ قدیم کے دور میں متعدد شادیوں کی اجازت تھی اور قانونِ تورات میں کثیر الازواجیت کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ پیغمبر داودؑ اور سلیمانؑ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر متعدد بیویاں رکھتے تھے ایڈورڈ ونیٹر مارک نے ”ہسٹری آف ہیومن میریجز“ میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے تین شادیاں کیں‘ حضرت موسیٰؑ نے چار شادیاں کیں‘ عہد نامہ قدیم کے مطابق دا¶دؑ پیغمبر جب ہیبرون سے یروشلم آئے تو ان کی کئی داشتائیں اور کئی بیویاں تھیں۔ ایڈورڈ ویسٹرمارک لکھتا ہے کہ مسیحی دنیا میں موجود شادی سے متعلق قوانین یسوع مسیحؑ کی تعلیمات کا حصہ نہیں بلکہ یہ سینٹ پال کے پیش کردہ عقائد سے اخذ کردہ ہیں۔ ریوونڈ ڈبلیو منٹگمری واٹ اپنی تصنیف ”واٹ از اسلام“ میں لکھتا ہے کہ ”مشکل یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے خلاف گہرا تعصب وراثت میں ملا ہے جس کے ڈانڈے قرون اولیٰ کے جنگی پروپیگنڈے سے جا ملتے ہیں اس لئے اسلام کی نسبت ہمارا اندازِ نظر مجموعی طور پر غیر جانبدارانہ نہیں ہے“ عیسائی مصنف جان رینالڈ لکھتا ہے ”عیسائی اس نبی اور ان کے کروڑوں مسلمان پیروکاروں کے مقام کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ان کے علاوہ مسیحی محقق ڈبلیو کانٹ ویل سمتھ‘ ربوزنڈ ٹی پی ہیوجیس‘ جے جے سانڈر‘ سر ہملسن گب اور دیگر نے حضور نبی کریم کی شخصیت اور تعلیمات کو مسخ کرنے کی جو کوشش کی خود عیسائی مستشرقین نے کھلے دل سے اس کی نشاندہی اور اعتراف کیا ہے۔ فلپ کے ہئی نے اپنی کتاب ”اسلام اینڈ وارز“ میں لکھا ہے کہ مستشرقین کی جانب سے آپ کی مخالفت کی وجوہات تعصب اور بالخصوص صلیبی جنگوں کے آئندہ خدشات ہیں جبکہ ڈاکٹر رابرٹ بریفالٹ نے یورپ کی سائنسی ترقی میں عرب تہذیب کے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کتاب فی الواقعہ سمندر کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے ہر مسلمان کو اس کا ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ حضرت پیر کرم شاہ الازہریؒ کا روشن کردہ علمی چراغ ضیاءالقرآن پبلشرز کے نام سے جو عمل کا نور پھیلا رہا ہے یہ کتاب اس سلسلے کی کڑی ہے جناب محمد حفیظ البرکات شاہ نے اعلیٰ طباعت اور عمدہ کاغذ پر یہ کتاب شائع کر کے عقیدت رسول میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ 256صفحات کئی تواریخ کا نچوڑ ہیں اور 250روپے قیمت بھی بہت مناسب ہے بلاشبہ یہ کتاب مرحوم ظفر علی قریشی‘ مترجمین اور ناشر کے لئے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ خدا انہیں اجر عظیم عطا فرمائے (آمین)