امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی نے پاکستان کیلئے امداد کے حوالے سے شرائط سخت کرنے کی تجویز دیدی ہے۔ امریکی خبررساں ادارے کے مطابق خصوصی کمیٹی نے گزشتہ روز 649 ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کے بل کی منظوری دی جس کے تحت امریکی دفاعی محکمے کیلئے 530 ارب ڈالر جبکہ عراق اور افغانستان میں جنگ کےلئے 119 ارب ڈالر مہیا ہونگے جو صدر اوبامہ کی تجویز کردہ رقم میں سے 9 ارب ڈالر کم ہیں۔ منظور شدہ بل میں پاکستان کیلئے ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر امداد کے 75 فیصد حصے کو اس وقت تک روک دینے کی سفارش کی گئی ہے جب تک انتظامیہ اسکے استعمال کے بارے میں کانگریس کو رپورٹ پیش نہیں کرتی۔ خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان کی امداد کے حوالے سے یہ فیصلہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کی جانیوالی کوششوں سے غیرمطمئن ہو کر کمیٹی نے دفاعی بل میں ترمیم کی ہے۔ امریکی کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن مائیک راجرز نے اس سلسلہ میں باور کرایا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کیخلاف اقدامات کیلئے دباﺅ ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان کو زیر حراست طالبان اور القاعدہ رہنماﺅں تک رسائی دینا ہو گی۔ انکے بقول پاکستان میں حکومت سے نہیں‘ فوج سے مذاکرات کر رہے ہیں اور امید ہے کہ فوج جلد ہی کوئی فیصلہ کریگی۔ پاکستان کو امریکہ کا اتحادی رہنا ہے تو مطالبات تسلیم کرنا ہونگے۔
امریکی نائن الیون کے بعد اس خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ میں ویسے تو شروع دن سے ہی پاکستان ”ڈومور“ کے امریکی تقاضوں کی زد میں ہے تاہم گزشتہ ماہ 2 مئی کو ایبٹ آباد کمپاﺅنڈ میں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی سپیشل فورسز کے یکطرفہ اپریشن کے بعد تو اوپر سے لےکر نیچے تک ہر امریکی کی زبان پاکستان کیلئے زہر اگلتی اور اس ایٹمی قوت کے حامل آزاد اور خودمختار ملک کی سالمیت کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے ٹکڑوں پر پل رہے ہو اور ہمی کو میاﺅں کرتے ہو۔ امریکی حکام کے لہجے میں اتنی رعونت نظر آتی ہے کہ وہ ہمیں عملاً اپنا دست بستہ غلام سمجھ بیٹھے ہیں جیسے ہم اسکی ٹھوکروں پر پڑے ہوں اور رحم کی بھیک مانگ رہے ہوں۔ امریکی سینٹ کمیٹی کے چیئرمین جان کیری اور امریکی وزیر دفاع بل گیٹس کو پاکستان کا ہمدرد تصور کیا جاتا تھا مگر سانحہ ایبٹ آباد کے بعد جان کیری بھی پوری رعونت اور طمطراق کے ساتھ پاکستان آئے اور تمسخرانہ لہجے میں ہمارے حکومتی اور عسکری قائدین کو باور کرایا کہ وہ ایبٹ آباد کے واقعہ پر پاکستان سے معافی مانگنے ہرگز نہیں آئے بلکہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی جانب سے نتیجہ خیز کارروائی کا یقین حاصل کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں رعونت بھرے لہجے میں خود یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کےخلاف مشترکہ اپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے بھی پاکستان آکر دھمکی آمیز اور متکبرانہ لب و لہجہ اختیار کئے رکھا جبکہ اب امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی بظاہر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حقیقتاً اس پر دباﺅ ڈالے رکھنے کی پالیسی ہی اختیار کی ہے اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کی بم تیار کرنیوالی مبینہ فیکٹریوں کے حوالے سے اطلاعات لیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ امریکی حکام کو پاکستان کے اس طرز عمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔
امریکی کانگریس میں سانحہ ایبٹ آباد سے اب تک پاکستان کو کیری لوگر بل کی بنیاد پر دی جانیوالی امریکی امداد موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے‘ کبھی یہ امداد بند کرنے کی قرارداد لائی جاتی ہے تو کبھی اس امداد کا 75 فیصد حصہ روکنے کا اعلان کیا جاتا ہے‘ جیسے اسی امداد پر پاکستان کی بقاءکا انحصار ہو۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان اب تک اپنی سیکورٹی فورسز کے حکام اور اہلکاروں سمیت 40 ہزار کے قریب قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے اور اسکی معیشت کو 68 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسکے مقابلہ میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف کیری لوگر بل کے تحت 11 ارب ڈالر کی امداد کی منظوری دی گئی جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے حساب سے بطور خیرات پاکستان کے حکمرانوں کے پھیلائے گئے کشکول میں ڈالنے کا طے ہوا اور وہ بھی کڑی شرائط اور چھان پھٹک کے بعد طعن و تشنیع کرتے ہوئے پاکستان کو فراہم کی جا رہی ہے جو امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے نقصانات کے ازالہ کا عشر عشیر بھی نہیں ہے‘ اب اس پر بھی رعونت بھرے دھمکی آمیز لب و لہجہ میں اسکی جاری امداد کا 75 فیصد ڈومور کے تقاضے پورے ہونے تک روک لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ مشترکہ اپریشن کے نام پر پاکستان میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت ایبٹ آباد جیسا یکطرفہ امریکی اپریشن کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں اور ہماری منتخب پارلیمنٹ کو اسکی اصل حیثیت کا احساس دلانے کیلئے ڈرون حملوں کیخلاف منظور کی گئی اسکی متفقہ قرارداد کے میڈیا پر آتے ہی ڈرون حملوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کو یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے بھی آمادہ ہو گیا ہے۔ ان امریکی سازشوں اور چالبازیوں کے باعث ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی بھی اسکے ہاتھوں سخت خطرات میں گھری نظر آتی ہے اس لئے کیا اب ضروری نہیں ہو گیا کہ امریکہ کو پاکستان کے آزاد اور خودمختار ایٹمی ملک ہونے کا احساس دلایا جائے‘ پارلیمنٹ کی قرارداد پر بھی اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کردیا جائے اور ہمیں ہزیمتوں کی راہ پر لگانے والی حقیر امریکی امداد کے بغیر گزارا کرنے کی سوچ کو پروان چڑھا کر خودانحصاری پر تکیہ کیا جائے۔ اس کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ”اِنف از اِنف“ کے مصداق اب امریکی مفادات کی جنگ سے خود کو نکال لیا جائے اور ملک کی سالمیت کیخلاف امریکی جارحانہ عزائم کا نہ صرف فوری توڑ کیا جائے بلکہ ڈرون حملوں اور ایبٹ آباد اپریشن کی شکل میں اسکی جارحیت کا بھی ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے مو¿ثر جواب دیا جائے۔ امریکی دفاعی اخراجات کے بل میں عراق اور افغانستان کی جنگ کیلئے مختص کی گئی 119ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ لزبن کانفرنس کے طے کردہ شیڈول کے مطابق اپنی افواج افغانستان سے واپس لے جانے کا قطعاً ارادہ نہیں رکھتا بلکہ اسکی نیت افغانستان میں مستقل ڈیرے جمائے رکھنے کی ہے جس کی نشاندہی ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے کہ امریکہ 2014ءکے بعد بھی افغانستان میں لمبے عرصے تک قیام کیلئے کرزئی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ جب تک امریکی نیٹو افواج افغان دھرتی پر موجود رہیں گی نہ صرف علاقائی اور عالمی امن تہہ و بالا ہوتا رہے گا‘ بلکہ ہم سے امریکی ڈومور کے ذلت آمیز تقاضے بھی بڑھتے جائینگے اس لئے اب ہمارے حکمرانوں کو قومی خودداری اور خودمختاری کے تقاضوں کے تحت امریکی مفادات کی جنگ سے خلاصی حاصل کرلینی چاہیے اور امریکی امداد کے بجائے اپنے وسائل پر تکیہ کرتے ہوئے قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے حکمران طبقات میں کفایت شعاری کا چلن اختیار کیا جائے‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ گورنرز اور وزراءاعلیٰ ہاﺅسز‘ قومی و صوبائی سپیکروں اور وفاقی اور صوبائی وزراءکے تمام صوابدیدی فنڈز ہنگامی بنیادوں پر روک لئے جائیں‘ محض عیاشی کے زمرے میں آنیوالے وفاقی اور صوبائی غیرترقیاتی اخراجات میں نمایاں کٹ لگایا جائے اور ”روکھی سوکھی کھا‘ ٹھنڈا پانی پی‘ غیرتمند قوم کا فرد بن کر جی“ کا سلوگن قومی تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے ایسے ہی ممکنہ حالات کو بھانپ کر درس دیا تھا کہ....
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ‘ غریبی میں نام پیدا کر
امریکہ ہماری خودمختاری کو بھی چیلنج کر رہا ہے اور ہماری خودی کا بھی امتحان لے رہا ہے۔ ہمیں اغیار کے مقابلہ میں بہرصورت ایک غیرت مند اور خوددار قوم اور آزاد و خودمختار مملکت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا چلن اختیار کرنا ہے جس کیلئے فیصلہ کن اقدامات بروئے کار لانے کا یہی موقع ہے‘ ورنہ ہم امریکی امداد کے حقیر ٹکڑوں پر پلتے اپنی غیرت و آبرو‘ خودداری اور خودمختاری کو داﺅ پر لگاتے‘ ہزیمتیں اٹھاتے رہیں گے۔
ن لیگ اور ہم خیال گروپ
کے اتحاد میں پیشرفت
مسلم لیگ ن اور ق لیگ ہم خیال اتحاد کےلئے مشترکہ کمیٹی بنانے پر متفق ہو گئے۔ گزشتہ روز نواز شریف سے سلیم سیف اللہ کی قیادت میں ق لیگ ہم خیال کے سینٹرز کے وفد نے ملاقات کی جس کے بعد سینٹر ہارون اختر نے میڈیا کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد کی صورت میں انکی جماعت الگ تشخص برقرار رکھے گی۔ آئی این پی کے مطابق میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کے مخالف نہیں تاہم مشکل وقت میں بے وفائی کرنے والوں سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔
ذاتی مفادات کی خاطر کچھ لوگوں نے قائداعظم کی مسلم لیگ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک مذاق بنا دیا۔ قوم کو اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ہم آہنگی کا درس دینے والے خود اپنے ناموں سے مسلم لیگیں منسوب کر کے دوسرے گروپ کے لوگوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ مسلم لیگی گروپوں اور گروہوں میں پہلے ہی کیا کمی تھی کہ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد ان میں مزید نصف درجن کا اضافہ ہو گیا۔ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد ن لیگ کی کی کوکھ سے ق لیگ نے جنم لیا۔ 2008ءمیں منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے باعث ق لیگ اقتدار میں نہ آ سکی تو مزید ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اب تو ماشاءاللہ پرویز مشرف کی مسلم لیگ نے بھی جنم لے لیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف پسند کے ق لیگیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں جن پر بے وفائی کا الزام ہے ان کو قریب نہیں آنے دیتے۔ اس طرح کے لوگ تو ہم خیال گروپ میں بھی موجود ہیں جن کے ساتھ اتحاد کےلئے مشترکہ کمیٹی بنا دی گئی ہے، اگر یہ برداشت ہیں تو باقی کیوں نہیں؟ پیر پگاڑا کی کوششوں سے تمام لیگی گروپ کب کے متحد ہو چکے ہوتے لیکن اتحاد کی راہ میں بڑے میاں اور چھوٹے چودھری رکاوٹ بن رہے ہیں۔ میاں صاحب کو کچھ لوگوں سے بے وفائی کا گلہ ہے ایسا گلہ ان کو بھی ہے جو میاں صاحب کی نظر میں بے وفا ہیں۔ میاں صاحب کو مشرف نے جلاوطن کیا تو میاں صاحب کو چاہئے تھا کہ پوری پارٹی کو اعتماد میں لیتے اور انہیں جلاوطنی قبول کرنے سے متعلق اپنے فیصلہ سے آگاہ کرکے پارٹی کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا کہتے، بہتر تھا ان سے کہتے میرے لئے دعا، اپنے لئے جو مناسب ہے وہ کریں۔ میاں صاحب نے اپنی پارٹی کو لاوارث چھوڑا تو جس کے جدھر سینگ سمائے وہ ادھر چلا گیا۔ گو مسلم لیگ (ن) اور ہم خیالوں کا انضمام نہیں اتحاد ہو رہا ہے یہ بھی روٹھے روٹھے رہنے سے بہتر ہے۔ گو بہت دیر ہو گئی تاہم اب بھی لیگی دھڑے متحد ہو جائیں تو ملکی و قومی مفاد کے ساتھ خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ میاں صاحب بے وفائی کے طعنے نہ دیں جو ملک و قوم کےلئے بہتر ہے وہ کریں۔ یقیناً لیگی دھڑوں کا اتحاد قوم و ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
کراچی میں قیام امن کیلئے
تمام گروپ متحد ہوں
کراچی میں گزشتہ روز بھی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا‘ تشدد اور فائرنگ کے واقعات میں خاتون اور 3 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔
کراچی میں کہیں سیاسی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں‘ کہیں بھتہ خوری اور مختلف علاقوں میں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کی مخلوط حکومت ہے اور تینوں ایک دوسرے پر بدامنی پھیلانے کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔ وزیر داخلہ کراچی جاتے ہیں اورٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کا اعلان کرکے چلے آتے ہیں‘ وزیراعظم گیلانی کو کراچی جانے اور حکومتی اتحادیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لابٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ کراچی صدر آصف علی زرداری کا پرانا کاروباری شہر ہے‘ وہ بھی چند روز کراچی میں امن و امان قائم کرنے کیلئے بیٹھ جائیں۔ الطاف بھائی بھی آجائیں‘ اسفندیار ولی بھی کراچی کے پشتونوں کو وقت دیں تو معاملات مہینوں‘ ہفتوں میں نہیں‘ ایک آدھ دن میں درست ہو جائینگے۔ کراچی میں قیام امن کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے کہ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے‘ وفاق براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ پولیس‘ رینجرز ایف سی کیا وفاق کے ماتحت نہیں۔ وزارت داخلہ کس لئے ہے‘ ابھی کل ہی ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو کیا قائم علی شاہ نے ہٹایا ہے؟ وزیراعظم کے ایسے بیانات اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہےں۔ قوم تو توقع کرتی ہے کہ وزیراعظم ایک جوش اور ولولے کے تحت کراچی کو جو پاکستان کی اقتصادی اور مالی شہ رگ ہے‘ امن کا گہوارہ بنانے کیلئے آﺅٹ آف ٹرن جا کر بھی کوشش کرینگے۔ وہ امن و امان کو صوبائی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔
امریکی نائن الیون کے بعد اس خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ میں ویسے تو شروع دن سے ہی پاکستان ”ڈومور“ کے امریکی تقاضوں کی زد میں ہے تاہم گزشتہ ماہ 2 مئی کو ایبٹ آباد کمپاﺅنڈ میں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی سپیشل فورسز کے یکطرفہ اپریشن کے بعد تو اوپر سے لےکر نیچے تک ہر امریکی کی زبان پاکستان کیلئے زہر اگلتی اور اس ایٹمی قوت کے حامل آزاد اور خودمختار ملک کی سالمیت کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے ٹکڑوں پر پل رہے ہو اور ہمی کو میاﺅں کرتے ہو۔ امریکی حکام کے لہجے میں اتنی رعونت نظر آتی ہے کہ وہ ہمیں عملاً اپنا دست بستہ غلام سمجھ بیٹھے ہیں جیسے ہم اسکی ٹھوکروں پر پڑے ہوں اور رحم کی بھیک مانگ رہے ہوں۔ امریکی سینٹ کمیٹی کے چیئرمین جان کیری اور امریکی وزیر دفاع بل گیٹس کو پاکستان کا ہمدرد تصور کیا جاتا تھا مگر سانحہ ایبٹ آباد کے بعد جان کیری بھی پوری رعونت اور طمطراق کے ساتھ پاکستان آئے اور تمسخرانہ لہجے میں ہمارے حکومتی اور عسکری قائدین کو باور کرایا کہ وہ ایبٹ آباد کے واقعہ پر پاکستان سے معافی مانگنے ہرگز نہیں آئے بلکہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی جانب سے نتیجہ خیز کارروائی کا یقین حاصل کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں رعونت بھرے لہجے میں خود یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کےخلاف مشترکہ اپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے بھی پاکستان آکر دھمکی آمیز اور متکبرانہ لب و لہجہ اختیار کئے رکھا جبکہ اب امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی بظاہر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حقیقتاً اس پر دباﺅ ڈالے رکھنے کی پالیسی ہی اختیار کی ہے اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کی بم تیار کرنیوالی مبینہ فیکٹریوں کے حوالے سے اطلاعات لیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ امریکی حکام کو پاکستان کے اس طرز عمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔
امریکی کانگریس میں سانحہ ایبٹ آباد سے اب تک پاکستان کو کیری لوگر بل کی بنیاد پر دی جانیوالی امریکی امداد موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے‘ کبھی یہ امداد بند کرنے کی قرارداد لائی جاتی ہے تو کبھی اس امداد کا 75 فیصد حصہ روکنے کا اعلان کیا جاتا ہے‘ جیسے اسی امداد پر پاکستان کی بقاءکا انحصار ہو۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان اب تک اپنی سیکورٹی فورسز کے حکام اور اہلکاروں سمیت 40 ہزار کے قریب قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے اور اسکی معیشت کو 68 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسکے مقابلہ میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف کیری لوگر بل کے تحت 11 ارب ڈالر کی امداد کی منظوری دی گئی جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے حساب سے بطور خیرات پاکستان کے حکمرانوں کے پھیلائے گئے کشکول میں ڈالنے کا طے ہوا اور وہ بھی کڑی شرائط اور چھان پھٹک کے بعد طعن و تشنیع کرتے ہوئے پاکستان کو فراہم کی جا رہی ہے جو امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے نقصانات کے ازالہ کا عشر عشیر بھی نہیں ہے‘ اب اس پر بھی رعونت بھرے دھمکی آمیز لب و لہجہ میں اسکی جاری امداد کا 75 فیصد ڈومور کے تقاضے پورے ہونے تک روک لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ مشترکہ اپریشن کے نام پر پاکستان میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت ایبٹ آباد جیسا یکطرفہ امریکی اپریشن کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں اور ہماری منتخب پارلیمنٹ کو اسکی اصل حیثیت کا احساس دلانے کیلئے ڈرون حملوں کیخلاف منظور کی گئی اسکی متفقہ قرارداد کے میڈیا پر آتے ہی ڈرون حملوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کو یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے بھی آمادہ ہو گیا ہے۔ ان امریکی سازشوں اور چالبازیوں کے باعث ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی بھی اسکے ہاتھوں سخت خطرات میں گھری نظر آتی ہے اس لئے کیا اب ضروری نہیں ہو گیا کہ امریکہ کو پاکستان کے آزاد اور خودمختار ایٹمی ملک ہونے کا احساس دلایا جائے‘ پارلیمنٹ کی قرارداد پر بھی اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کردیا جائے اور ہمیں ہزیمتوں کی راہ پر لگانے والی حقیر امریکی امداد کے بغیر گزارا کرنے کی سوچ کو پروان چڑھا کر خودانحصاری پر تکیہ کیا جائے۔ اس کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ”اِنف از اِنف“ کے مصداق اب امریکی مفادات کی جنگ سے خود کو نکال لیا جائے اور ملک کی سالمیت کیخلاف امریکی جارحانہ عزائم کا نہ صرف فوری توڑ کیا جائے بلکہ ڈرون حملوں اور ایبٹ آباد اپریشن کی شکل میں اسکی جارحیت کا بھی ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے مو¿ثر جواب دیا جائے۔ امریکی دفاعی اخراجات کے بل میں عراق اور افغانستان کی جنگ کیلئے مختص کی گئی 119ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ لزبن کانفرنس کے طے کردہ شیڈول کے مطابق اپنی افواج افغانستان سے واپس لے جانے کا قطعاً ارادہ نہیں رکھتا بلکہ اسکی نیت افغانستان میں مستقل ڈیرے جمائے رکھنے کی ہے جس کی نشاندہی ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے کہ امریکہ 2014ءکے بعد بھی افغانستان میں لمبے عرصے تک قیام کیلئے کرزئی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ جب تک امریکی نیٹو افواج افغان دھرتی پر موجود رہیں گی نہ صرف علاقائی اور عالمی امن تہہ و بالا ہوتا رہے گا‘ بلکہ ہم سے امریکی ڈومور کے ذلت آمیز تقاضے بھی بڑھتے جائینگے اس لئے اب ہمارے حکمرانوں کو قومی خودداری اور خودمختاری کے تقاضوں کے تحت امریکی مفادات کی جنگ سے خلاصی حاصل کرلینی چاہیے اور امریکی امداد کے بجائے اپنے وسائل پر تکیہ کرتے ہوئے قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے حکمران طبقات میں کفایت شعاری کا چلن اختیار کیا جائے‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ گورنرز اور وزراءاعلیٰ ہاﺅسز‘ قومی و صوبائی سپیکروں اور وفاقی اور صوبائی وزراءکے تمام صوابدیدی فنڈز ہنگامی بنیادوں پر روک لئے جائیں‘ محض عیاشی کے زمرے میں آنیوالے وفاقی اور صوبائی غیرترقیاتی اخراجات میں نمایاں کٹ لگایا جائے اور ”روکھی سوکھی کھا‘ ٹھنڈا پانی پی‘ غیرتمند قوم کا فرد بن کر جی“ کا سلوگن قومی تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے ایسے ہی ممکنہ حالات کو بھانپ کر درس دیا تھا کہ....
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ‘ غریبی میں نام پیدا کر
امریکہ ہماری خودمختاری کو بھی چیلنج کر رہا ہے اور ہماری خودی کا بھی امتحان لے رہا ہے۔ ہمیں اغیار کے مقابلہ میں بہرصورت ایک غیرت مند اور خوددار قوم اور آزاد و خودمختار مملکت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا چلن اختیار کرنا ہے جس کیلئے فیصلہ کن اقدامات بروئے کار لانے کا یہی موقع ہے‘ ورنہ ہم امریکی امداد کے حقیر ٹکڑوں پر پلتے اپنی غیرت و آبرو‘ خودداری اور خودمختاری کو داﺅ پر لگاتے‘ ہزیمتیں اٹھاتے رہیں گے۔
ن لیگ اور ہم خیال گروپ
کے اتحاد میں پیشرفت
مسلم لیگ ن اور ق لیگ ہم خیال اتحاد کےلئے مشترکہ کمیٹی بنانے پر متفق ہو گئے۔ گزشتہ روز نواز شریف سے سلیم سیف اللہ کی قیادت میں ق لیگ ہم خیال کے سینٹرز کے وفد نے ملاقات کی جس کے بعد سینٹر ہارون اختر نے میڈیا کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد کی صورت میں انکی جماعت الگ تشخص برقرار رکھے گی۔ آئی این پی کے مطابق میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کے مخالف نہیں تاہم مشکل وقت میں بے وفائی کرنے والوں سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔
ذاتی مفادات کی خاطر کچھ لوگوں نے قائداعظم کی مسلم لیگ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک مذاق بنا دیا۔ قوم کو اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ہم آہنگی کا درس دینے والے خود اپنے ناموں سے مسلم لیگیں منسوب کر کے دوسرے گروپ کے لوگوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ مسلم لیگی گروپوں اور گروہوں میں پہلے ہی کیا کمی تھی کہ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد ان میں مزید نصف درجن کا اضافہ ہو گیا۔ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد ن لیگ کی کی کوکھ سے ق لیگ نے جنم لیا۔ 2008ءمیں منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے باعث ق لیگ اقتدار میں نہ آ سکی تو مزید ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اب تو ماشاءاللہ پرویز مشرف کی مسلم لیگ نے بھی جنم لے لیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف پسند کے ق لیگیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں جن پر بے وفائی کا الزام ہے ان کو قریب نہیں آنے دیتے۔ اس طرح کے لوگ تو ہم خیال گروپ میں بھی موجود ہیں جن کے ساتھ اتحاد کےلئے مشترکہ کمیٹی بنا دی گئی ہے، اگر یہ برداشت ہیں تو باقی کیوں نہیں؟ پیر پگاڑا کی کوششوں سے تمام لیگی گروپ کب کے متحد ہو چکے ہوتے لیکن اتحاد کی راہ میں بڑے میاں اور چھوٹے چودھری رکاوٹ بن رہے ہیں۔ میاں صاحب کو کچھ لوگوں سے بے وفائی کا گلہ ہے ایسا گلہ ان کو بھی ہے جو میاں صاحب کی نظر میں بے وفا ہیں۔ میاں صاحب کو مشرف نے جلاوطن کیا تو میاں صاحب کو چاہئے تھا کہ پوری پارٹی کو اعتماد میں لیتے اور انہیں جلاوطنی قبول کرنے سے متعلق اپنے فیصلہ سے آگاہ کرکے پارٹی کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا کہتے، بہتر تھا ان سے کہتے میرے لئے دعا، اپنے لئے جو مناسب ہے وہ کریں۔ میاں صاحب نے اپنی پارٹی کو لاوارث چھوڑا تو جس کے جدھر سینگ سمائے وہ ادھر چلا گیا۔ گو مسلم لیگ (ن) اور ہم خیالوں کا انضمام نہیں اتحاد ہو رہا ہے یہ بھی روٹھے روٹھے رہنے سے بہتر ہے۔ گو بہت دیر ہو گئی تاہم اب بھی لیگی دھڑے متحد ہو جائیں تو ملکی و قومی مفاد کے ساتھ خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ میاں صاحب بے وفائی کے طعنے نہ دیں جو ملک و قوم کےلئے بہتر ہے وہ کریں۔ یقیناً لیگی دھڑوں کا اتحاد قوم و ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
کراچی میں قیام امن کیلئے
تمام گروپ متحد ہوں
کراچی میں گزشتہ روز بھی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا‘ تشدد اور فائرنگ کے واقعات میں خاتون اور 3 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔
کراچی میں کہیں سیاسی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں‘ کہیں بھتہ خوری اور مختلف علاقوں میں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کی مخلوط حکومت ہے اور تینوں ایک دوسرے پر بدامنی پھیلانے کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔ وزیر داخلہ کراچی جاتے ہیں اورٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کا اعلان کرکے چلے آتے ہیں‘ وزیراعظم گیلانی کو کراچی جانے اور حکومتی اتحادیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لابٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ کراچی صدر آصف علی زرداری کا پرانا کاروباری شہر ہے‘ وہ بھی چند روز کراچی میں امن و امان قائم کرنے کیلئے بیٹھ جائیں۔ الطاف بھائی بھی آجائیں‘ اسفندیار ولی بھی کراچی کے پشتونوں کو وقت دیں تو معاملات مہینوں‘ ہفتوں میں نہیں‘ ایک آدھ دن میں درست ہو جائینگے۔ کراچی میں قیام امن کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے کہ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے‘ وفاق براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ پولیس‘ رینجرز ایف سی کیا وفاق کے ماتحت نہیں۔ وزارت داخلہ کس لئے ہے‘ ابھی کل ہی ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو کیا قائم علی شاہ نے ہٹایا ہے؟ وزیراعظم کے ایسے بیانات اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہےں۔ قوم تو توقع کرتی ہے کہ وزیراعظم ایک جوش اور ولولے کے تحت کراچی کو جو پاکستان کی اقتصادی اور مالی شہ رگ ہے‘ امن کا گہوارہ بنانے کیلئے آﺅٹ آف ٹرن جا کر بھی کوشش کرینگے۔ وہ امن و امان کو صوبائی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔