گزشتہ سے پیوستہ
٭ ہٹلر کی طرح بُش کے بارے میں بھی یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بش جونیئر اور اُس کے ساتھیوں نے اُس ”انتہائی بھیانک بین الاقوامی جرم“ کا ارتکاب کیا جو کھلی جارحیت کا جرم تھا جسے جسٹس رابرٹ جیکسن نے (جو یونائییڈ سٹیٹس کی طرف سے نیورمبرگ میں کونسل کے چیف تھے) اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ”مسلح افواج کے ذریعے کسی دوسری ریاست کے علاقے پر بلا جواز حملہ کردینے کا نام جارحیت ہے خواہ وہ حملہ اعلانِ جنگ کے بعد ہو یا بلا اعلانِ جنگ کے بغیر ہو۔“
جارحیت کی یہی تعریف جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد میں بھی دہرائی گئی ہے اور اِسکی توثیق کی گئی ہے اور کوئی فرد خواہ وہ جارحیت کا کتنا بڑا ہی حامی کیوں نہ ہواس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ بُش اور بش کے ساتھیوں نے عراق اور افغانستان پر حملوں کی صورت میں جارحیت کا کھلے بندوں ارتکاب کیا تھا!ہمیں جسٹس رابرٹ جیکسن کے اُن یادگار الفاظ کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو اُنہوں نے نیومبرگ میں ”آفاقی اصول‘’ کی وضاحت کرتے ہوئے کہے تھے کہ:
”اگر بین الاقومی معاہدوں کو توڑنے والے اقدامات جرائم ہیں تو ایسے جرائم ہمیشہ جرائم ہی کہلائیں گے خواہ اُن کا ارتکاب یونائیٹڈ سٹیٹس کر ے خواہ جرمنی کرے! اور ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس ریکارڈ کی بنیاد پر ہم مجرمین کےخلاف آج فیصلہ کرتے ہیں اُسی ریکارڈ کی بنیاد پر کل تاریخ ہمارے خلاف بھی فیصلہ صادر کرد ےگی۔“
٭ یہ بات بھی واضح رہے کہ خود اختیارانہ مقاصد ہمیشہ بے محل (irrelerant) ہوتے ہیں۔ جاپانی فاشسٹوں کا یہ ایمان تھا کہ چین کو روند ڈالنے کی صورت میں وہ اُسے ”جنت ارضی“ میں بدل دینگے ہو سکتا ہے ہٹلر کا بھی یہی گمان ہو وہ جرمنی کو دو قطبی ”وحشیانہ دہشت گردی (Wilde Terror) سے بچا رہا ہے یا یہ کہ چیکو سلواکیہ کو زیرِ نگین لانے کا مقصد اُس کی آبادی کو نسلی فساد سے بچانا ہے اور ایک اعلیٰ ثقافت کے ثمرات سے اُسے فیض یاب کرنا ہے۔ یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق پر حملے کی آڑ میں بُش اینڈ کمپنی کا مقصد دُنیا کو صدام کے جوہری ہتھیاروں کی تباہی سے بچانا قرار پایا تھا۔ یہ سارے کے سارے خود اختیارانہ مقاصد جس طرح سراسر بے محل اور بے بنیاد تھے اسی طرح موجودہ خود اختیارانہ مقاصد بھی سراسر بے محل اور بے بنیاد ہیں!
٭ موجودہ صورتحال میں ہمارے پاس دو طرح کا چنا¶ ہی باقی رہ جاتا ہے یعنی یا تو ہم بُش اور بُش کے ساتھیوں کو انتہائی بھیانک بین الاقوامی جرم کا مُرتکب مان لیں اور اُن سب برائیوں سمیت مان لیں جو اس سطح کے جرائم کا حصہ ہوتی ہیں! جن کی سنگینی اُس برائی سے بہت زیادہ ہے جسے بن لادن سے منسوب کیا جاتا ہے!.... یا پھر ہم یہ مان لیں کہ نیورمبرگ ٹربیونل کی پیش رفت اور فیصلہ غلط تھا اور نازی جرائم کے مرتکبین کی دی جانے والی پھانسی کی سزا بھی ایک عدالتی قتل تھی؟
٭ بن لادن کے بہیمانہ قتل کے نتائج کیا ہونگے عرب دنیا کے حوالے سے یہ سوال بے معنی ہے لیکن پاکستان کے حوالے سے یہ سوال ہرگز بے معنی نہیں ہے۔ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق واشنگٹن کی ناراضگی پر بحث مباحثہ تو بہت ہوا ہے لیکن اُس غم و غصہ پر کم از کم بات کی گئی ہے جو ایک سیاسی قتل کےلئے امریکہ کے پاکستانی علاقے پر حملے کےخلاف پاکستان کے طول و عرض میں پایا جاتا ہے۔ امریکہ مخالف جوش وخروش پاکستان میں پہلے ہی اپنی انتہاءپر تھا جو موجودہ حالات و واقعات کے نتیجے میں مزید شدت اختیار کر چکا ہے ۔
٭ پاکستان کے بارے میں امریکہ میں یہ تصور عام ہے کہ پاکستان کرہ ارض کا خطرناک ترین ملک ہے جو تیز تر رفتار سے جوہری طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان کی خود مختاری پر بار بار حملے کر کے امریکہ نے پاکستانی فوج کو پہلے ہی آخری کنارے پر پہنچا دیا ہے اور بن لادن کے قتل کے بعد کئے جانے والے ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی فوج سے افغان طالبان کےخلاف امریکی جنگ میں تعاون کا مطالبہ کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ البتہ یہ امکان قوی سے قوی تر ہو رہا ہے کہ پاکستانی فوج کو حملہ آور امریکی فوج کےخلاف مزاحمتی جنگ میں سلامتی کا راستہ صاف نظر آنے لگے!
٭ ہٹلر کی طرح بُش کے بارے میں بھی یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بش جونیئر اور اُس کے ساتھیوں نے اُس ”انتہائی بھیانک بین الاقوامی جرم“ کا ارتکاب کیا جو کھلی جارحیت کا جرم تھا جسے جسٹس رابرٹ جیکسن نے (جو یونائییڈ سٹیٹس کی طرف سے نیورمبرگ میں کونسل کے چیف تھے) اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ”مسلح افواج کے ذریعے کسی دوسری ریاست کے علاقے پر بلا جواز حملہ کردینے کا نام جارحیت ہے خواہ وہ حملہ اعلانِ جنگ کے بعد ہو یا بلا اعلانِ جنگ کے بغیر ہو۔“
جارحیت کی یہی تعریف جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد میں بھی دہرائی گئی ہے اور اِسکی توثیق کی گئی ہے اور کوئی فرد خواہ وہ جارحیت کا کتنا بڑا ہی حامی کیوں نہ ہواس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ بُش اور بش کے ساتھیوں نے عراق اور افغانستان پر حملوں کی صورت میں جارحیت کا کھلے بندوں ارتکاب کیا تھا!ہمیں جسٹس رابرٹ جیکسن کے اُن یادگار الفاظ کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو اُنہوں نے نیومبرگ میں ”آفاقی اصول‘’ کی وضاحت کرتے ہوئے کہے تھے کہ:
”اگر بین الاقومی معاہدوں کو توڑنے والے اقدامات جرائم ہیں تو ایسے جرائم ہمیشہ جرائم ہی کہلائیں گے خواہ اُن کا ارتکاب یونائیٹڈ سٹیٹس کر ے خواہ جرمنی کرے! اور ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس ریکارڈ کی بنیاد پر ہم مجرمین کےخلاف آج فیصلہ کرتے ہیں اُسی ریکارڈ کی بنیاد پر کل تاریخ ہمارے خلاف بھی فیصلہ صادر کرد ےگی۔“
٭ یہ بات بھی واضح رہے کہ خود اختیارانہ مقاصد ہمیشہ بے محل (irrelerant) ہوتے ہیں۔ جاپانی فاشسٹوں کا یہ ایمان تھا کہ چین کو روند ڈالنے کی صورت میں وہ اُسے ”جنت ارضی“ میں بدل دینگے ہو سکتا ہے ہٹلر کا بھی یہی گمان ہو وہ جرمنی کو دو قطبی ”وحشیانہ دہشت گردی (Wilde Terror) سے بچا رہا ہے یا یہ کہ چیکو سلواکیہ کو زیرِ نگین لانے کا مقصد اُس کی آبادی کو نسلی فساد سے بچانا ہے اور ایک اعلیٰ ثقافت کے ثمرات سے اُسے فیض یاب کرنا ہے۔ یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق پر حملے کی آڑ میں بُش اینڈ کمپنی کا مقصد دُنیا کو صدام کے جوہری ہتھیاروں کی تباہی سے بچانا قرار پایا تھا۔ یہ سارے کے سارے خود اختیارانہ مقاصد جس طرح سراسر بے محل اور بے بنیاد تھے اسی طرح موجودہ خود اختیارانہ مقاصد بھی سراسر بے محل اور بے بنیاد ہیں!
٭ موجودہ صورتحال میں ہمارے پاس دو طرح کا چنا¶ ہی باقی رہ جاتا ہے یعنی یا تو ہم بُش اور بُش کے ساتھیوں کو انتہائی بھیانک بین الاقوامی جرم کا مُرتکب مان لیں اور اُن سب برائیوں سمیت مان لیں جو اس سطح کے جرائم کا حصہ ہوتی ہیں! جن کی سنگینی اُس برائی سے بہت زیادہ ہے جسے بن لادن سے منسوب کیا جاتا ہے!.... یا پھر ہم یہ مان لیں کہ نیورمبرگ ٹربیونل کی پیش رفت اور فیصلہ غلط تھا اور نازی جرائم کے مرتکبین کی دی جانے والی پھانسی کی سزا بھی ایک عدالتی قتل تھی؟
٭ بن لادن کے بہیمانہ قتل کے نتائج کیا ہونگے عرب دنیا کے حوالے سے یہ سوال بے معنی ہے لیکن پاکستان کے حوالے سے یہ سوال ہرگز بے معنی نہیں ہے۔ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق واشنگٹن کی ناراضگی پر بحث مباحثہ تو بہت ہوا ہے لیکن اُس غم و غصہ پر کم از کم بات کی گئی ہے جو ایک سیاسی قتل کےلئے امریکہ کے پاکستانی علاقے پر حملے کےخلاف پاکستان کے طول و عرض میں پایا جاتا ہے۔ امریکہ مخالف جوش وخروش پاکستان میں پہلے ہی اپنی انتہاءپر تھا جو موجودہ حالات و واقعات کے نتیجے میں مزید شدت اختیار کر چکا ہے ۔
٭ پاکستان کے بارے میں امریکہ میں یہ تصور عام ہے کہ پاکستان کرہ ارض کا خطرناک ترین ملک ہے جو تیز تر رفتار سے جوہری طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان کی خود مختاری پر بار بار حملے کر کے امریکہ نے پاکستانی فوج کو پہلے ہی آخری کنارے پر پہنچا دیا ہے اور بن لادن کے قتل کے بعد کئے جانے والے ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی فوج سے افغان طالبان کےخلاف امریکی جنگ میں تعاون کا مطالبہ کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ البتہ یہ امکان قوی سے قوی تر ہو رہا ہے کہ پاکستانی فوج کو حملہ آور امریکی فوج کےخلاف مزاحمتی جنگ میں سلامتی کا راستہ صاف نظر آنے لگے!