صوبہ بلوچستان کے پر فضا مقام زیارت میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رہائش گاہ" زیارت ریذیڈنسی" کو دھماکوں سے اڑانے کی خبر نے ہر محب الوطن پاکستانی کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ ان دھماکوں سے زیارت ریذیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عمارت تباہ ہوئی بلکہ بانی پاکستان کے زیر استعمال جن اشیاءکو قومی ورثے کے طور پر یہاں محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہو گئیں ۔یہ خوبصورت رہائش گاہ 1892 کے اوائل میں لکٹری سے تعمیر کی گئی تھی۔برطانوی دور حکومت میں جب افسران وادی زیارت کے دورے پر آتے تواس عمارت کو رہائش کیلئے استعمال کیا کرتے۔قیام پاکستان کے بعد1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نا ساز طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے اور اپنی زندگی کے آخری دو ماہ یہاں رہے۔انکے انتقال کے بعد اس رہائش گاہ کو قائد اعظم ریذیڈنسی کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔کوئٹہ سے122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ خوبصورت رہائش گاہ تعمیراتی اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل رہی ہے۔عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکٹری کے ستون ہیں ، عمارت کے اندورنی حصے میں بھی لکٹری کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس رہائش گاہ میں دونوں اطراف 28دروازے بنائے گئے ہیں۔پاکستانی کرنسی کے سو روپے کے نوٹ کے عقبی رخ پر اس عمارت کی تصویر موجود ہے، جبکہ کئی پاکستانی ٹیلی ویژن چینل اس عمارت کو بلوچستان کی نمائندہ عمارت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔زیارت ریذیڈنسی میں قائم کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اوردوسرا قائداعظمؒ کے ذاتی معالج کرنل الہٰی بخش کیلئے مخصوص کیا گیا تھا۔ہر سال گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے سیاحوں کی بہت بڑی تعدادیہاں کا رخ کرتی ہے ساڑھے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع زیارت کے علاقے میں صنوبر کے جنگلات کا دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے ۔زیارت کا نام ایک صوفی بزرگ بابا خرواری کے مزار کی بناءپر زیارت پڑا۔ قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ محض ایک دہشت گرد کارروائی نہیں بلکہ اسکے پس منظر میں بابائے قوم سے پاکستانیوں کی محبت کے ایک علامتی نشان کو زک پہنچایا گیا ہے ۔ اس قسم کی کارروائی کوئی پاکستانی حب الوطن نہیں کر سکتا۔یہ کارروائی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس ذہن نے تیار کی ہے جویہ نہیںچاہتاکہ بلوچستان کے حالات درست ہوں۔بلوچ قوم پرست رہنماﺅں کا قومی دھارے میں شامل ہونا اور بلوچستان میں امن و امان کے قیام کیلئے انکو جو ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے دی ہے وہ پاکستان کے لئے منفی سوچ رکھنے والے عناصر کو ایک آنکھ بھی نہیں بھائی اور انہوں نے قائد اعظم ریذیڈنسی کو نشانہ بنا کر یہ کوشش کی ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کی عوامی حکومت کو نشانہ بنایا جائے اور یہ تاثردیا جائے کہ انکی حکومت میں بلوچستان میں پاکستانیت کی علامات محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اس حساس صورتحال کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے حکمت عملی مرتب کرنی چاہئیے۔پاکستان میں پائے جانیوالے پچاس معدنی ذخائر میں سے چالیس بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان کے پشتون علاقے کی نسبت بلوچ علاقے میں معدنی ذخائر کی بہتات ہے۔ ایک اندازے کیمطابق بلوچستان کے پشتون علاقے میں کوئلے اور چند دوسرے معدنی ذخائر ہیں جبکہ بلوچ علاقے دنیا کی اہم ترین اور قیمتی دھاتوں کا خزینہ لیے ہوئے ہیں۔سوئی کے مقام پر پائی جانے والی گیس (سوئی گیس) کے ذخائر کے نیچے ایک اور معدنی ذخیرہ SHELLبھی دریافت ہوا ہے یہ قیمتی ذخیرہ دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ سیندک اور ریکودک میں پائے جانے والے تابنے اور سونے کے ذخائر کو اگر نیت نیتی اور محنت سے حاصل کیا جائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہو سکتا ہے۔ اربوں ڈالرز کے یہ ذخائر دریافت ہونے کے باوجود سال ہا سال سے مختلف حکومتوں کی کوتاہ نظری اور مخصوص انفرادی مفادات کی وجہ سے قومی دولت نہ حاصل کر سکے ہیں۔ بلوچستان کی معدنی دولت اسکے قدرتی وسائل اور جغرافیائی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بلوچستان ہی پاکستان کی اصل شہہ رگ ہے۔ کشمیر کی اہمیت یقینی اعتبار سے اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن بلوچستان کی اہمیت مجموعی طور پر پاکستان کیلئے کشمیر سے بھی زیادہ ہے۔ کشمیر ہمارے پاس نہیں پھر بھی ہم انفرادی اور قومی حیثیت سے اس کیلئے بے مثال جدو جہد کر رہے ہیں۔جب کہ بلوچستان تو ہر اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے پھر اس قدر بے اعتنائی کیوں؟بلوچستان کے عوام کی اسی فیصد سے زائد اکثریت اور انکی قیادت دل و جان سے پاکستان پر قربان ہونے کو تیار ہے۔ بلوچستان میں اگر علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں تو اسکی تمام تر ذمہ داری بلوچ قیادت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ فی الحقیقت وہاں علیحدگی کی بجائے یہ احساس زیادہ ہوا ہے کہ ان کو DEPRIVED رکھا گیا ہے۔ انکے حقوق کی پاسداری نہیں کی گئی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس احساس کو ہمارے مختلف حکمرانوں نے مزید اجاگر کیا ہے اوراپنی پہلی تقریر یا پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ہم بلوچستان کے عوام کے حقوق کی پاسداری کرینگے۔ بلوچستان کیلئے خصوصی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائینگے۔ میڈیا نے بھی حکمرانوں کے ان بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اس طرح ایک مجموعی تاثر بن گیا کہ بلوچستان ایک محروم خطہ ہے۔ بلوچستان کے عوام کی محرومی ایک قومی نعرے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔اگر غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو سندھ کاہاری، پنجاب کا کسان اور پختون خواہ کا پشتون بھی بلوچستان کے شہریوں کی طرح روز مرہ کی زندگی میں بڑی مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کی حالت کو بدلنے کیلئے قومی سطح پر سنجیدہ اور مخلص حکمت عملی کی ضرورت ہے۔پاکستان کو آزادی حاصل کئے65سال گزر چکے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام کی قسمت کیوں نہ بدل سکی اور وہاں قومی اتحاد کے مسائل کیوں ہیں؟انکو حل کرنے کیلئے درج ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔1-بلوچستان کے حوالے سے اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں، بلوچستان کے سرداروں کو اب تک حکومت یا ایجنسیوں کی طرف سے جو رقوم دی گئیں ہیں ان کا حساب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور اس پر بھی بحث ہو کہ یہ رقم کس وجہ سے دی گئی اور اس کاا ستعمال کہا ں ہوا۔2-بلوچستان میں کسی کو پرائیویٹ آرمی یا مسلح لشکر رکھنے پر پابندی لگائی جائے آئین کی وفعہ 256کے تحت یہ پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔3-ملک کے سرمایہ داروں کو بلوچستان میں صنعتیں شروع کرنے کیلئے خصوصی مراعات دی جائیں۔4-خود ساختہ جلاوطن بلوچ قیادت کو ملک میں آنے کی دعوت دی جائے اور ان کو اپنے نظریات Public Participated میڈیا پر پیش کرنے اور سوال و جواب کا اہتمام کیا جائے۔