کوئٹہ+ زیارت (بیورو رپورٹ+ ایجنسیاں+ وقت نیوز) زیارت میں واقع قائداعظم ریذیڈنسی نامعلوم افراد کے راکٹ اور بموں کے حملے کے بعد آگ لگنے کے باعث مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ بلوچستان حکومت کا عمارت کو دوبارہ اصلی حالت میں بحال کرنے کا اعلان۔ ڈپٹی کمشنر زیارت کے مطابق قائداعظم ریزیڈنسی کا تاریخی حیثیت کا فرنیچر بھی جل کر خاکستر ہو گیا ہے۔ آگ پر 4 گھنٹے بعد قابو پا لیا گیا۔ لیویز کی گاڑیاں ملزمان کی تلاش کر رہی ہیں۔ ڈی پی او کے مطابق عمارت کے ارد گرد بم ملے ہیں جن کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریزیڈنسی پر ایک ریموٹ کنٹرول اور 3 ٹائم ڈیوائسز اور دستی بموں سے حملہ کیا گیا۔ ڈی پی او کے مطابق عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 8 سے 10 تھی۔ انہوں نے کہا کہ زیارت میں فائر بریگیڈ کی سہولت موجود نہیں اس لئے آگ بجھانے میں تاخیر ہوئی۔ ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ چار دہشت گرد جو دو موٹر سائیکل پر سوار تھے، ریزیڈنسی کے احاطے میں داخل ہوئے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بم عمارت کی جانب پھینکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمارت میں موجود تمام یادگار اشیا جل کر خاکستر ہوگئی ہیں، جن میں قائداعظمؒ کے استعمال میں رہنے والی کرسیاں، بیڈ، تاریخی تصاویر غرضیکہ تمام یادگار چیزیں آگ کی نذر ہوگئیں، دہشت گرد باآسانی اور بلا خوف و خطر اپنا کام کرکے وہاں سے فرار ہوگئے۔ حملہ آوروں نے ریذیڈنسی سے قومی پرچم اتار کر بی ایل اے کا پرچم لہرایا‘ حملے کی رپورٹ فوری ایوان میں پیش کی جائے گی‘ ملک کو قانون اور ضابطے کے تحت چلانے کا مطالبہ کرنے والے اپوزیشن ارکان ایوان کو بھی قانون اور ضابطے کے مطابق چلنے دیں، اس واقعہ کو صوبائی ایشو قرار دے کر ایوان میں زیر بحث لانے سے روکا گیا۔ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ قائداعظم ریذیڈنس پر 8 سے 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا چودھری نثار علی خان نے کہا کہ قائداعظمؒ کی رہائش گاہ جلانے کا واقعہ اندوہناک ہے انہیں ابتدائی رپورٹ ملی ہے جس کے مطابق گزشتہ رات 1½ بجے کے قریب بعض نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ اور دھماکے کر کے رہائش گاہ کو تباہ کیا مزاحمت کے دوران ایک کانسٹیبل نے جان دیدی۔ سرچ آپریشن کے دوران ریموٹ کنٹرول بم اور جدید اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے وہاں قومی پرچم کی جگہ بی ایل اے کا پرچم بھی لہرایا۔ حملے میں بلوچ لبریشن آرمی ملوث ہے۔ چےف سےکرٹری بلوچستان بابر ےعقوب فتح محمد کا کہنا تھا کہ ےہ واقعہ بڑا افسوسناک ہے ملک بھر مےں اور زےارت کے لوگوں مےں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے لوگ بہت پرےشان ہےں ان کا کہنا تھا کہ مےں ےہ پےغام دےنا چاہتا ہوں کہ وزےراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے اعلان کےا ہے کہ رےزےڈنسی کو اس صورت مےں بحال کرےں گے جیسے ےہ پہلے تھی۔ اس مقصد کے لئے ا گر باہر سے ماہرےن منگوانے پڑے تو وہ بھی منگوائے جائےں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تباہ شدہ عمارت مےں موجود نوادرات تو دوبارہ بحال نہےں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ کا مقصد صرف عمارت کو نشانہ بنانا نہےں تھا بلکہ موقع پرموجود فورسز کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنانے کا پروگرام تھا اگر بم ناکارہ نہ بنائے جاتے تو جانی نقصان بہت زےادہ ہوتا۔انہوں نے کہا کہ حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ عمارت کو پہلے سے کوئی سکیورٹی خطرہ نہیں تھا۔ حملہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔ آئی جی بلوچستان مشتاق سکھیرا نے کہا کہ قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ بلوچستان کا بہت بڑا نقصان ہے۔ حملہ آوروں کو کچھ حاصل نہیں ہوا، ماسوائے شرمندگی کے۔ زیارت کے لوگوں نے اس کی ہمیشہ حفاظت کی۔ ریزیڈینسی پر حملے سے متعلق کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی۔بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ واضح رہے حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہو گیا تھا جسے سپردخاک کر دیا گیا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے مطابق مسلح حملہ آوروں نے عمارت میں متعدد بم نصب کرنے کے علاوہ فائرنگ بھی کی جس سے عمارت کی سکیورٹی پر تعینات ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ نصب کئے جانے والے چار بم پھٹنے سے زیارت ریزیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف عمارت تباہ ہو گئی بلکہ بانی پاکستان کے زیراستعمال جن اشیا کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ تاہم ریزیڈنسی کی مرکزی عمارت کے قریب واقع لائبریری اور عجائب گھر محفوظ رہے جس میں قائداعظمؒ کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ بم ڈسپوزل سکواڈ نے چار بم ناکارہ بھی بنا دئیے جبکہ حملہ آور فرار ہو گئے۔ ریڈیو پاکستان نے مقامی ضلعی پولیس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ریزیڈنسی پر راکٹ بھی فائر کئے۔ زیارت کے شہریوں نے اس حملے کے خلاف ہڑتال کی ہے اور حملے کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی حاں نے کہا ہے قائداعظم ریذیڈنسی میں 5 دھماکے ہوئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قائداعظم ریذیڈنسی پر رات سوا ایک بجے حملہ کیا گیا۔ ریذیڈنسی پر پرائیویٹ گارڈز کا انتظام ہے، چار سے چھ پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں، اس قسم کا واقعہ کبھی نہیں ہوا، یہ واقعہ اچانک ہوا، انٹیلی جنس رپورٹ نہیں تھی، دھماکوں کے نتیجے میں آگ لگ گئی جس سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ لوکل پولیس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، تمام دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بہت اندوہناک اور افسوسناک واقعہ ہے، تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ریذیڈنسی کی تعمیرنو کا حکم دے دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سے مل کر جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ یا لڑائی کا معیار برقرار رہے تو اعزازی طریقہ ہے قومی عجائات جو کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہے اور دور دراز تک جھگڑے سے تعلق نہیں پاکستان کے حوالے سے ریذیڈنسی کی اہمیت اس حوالے سے زیادہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آخری ایام یہاں گزارے تھے۔ حیران ہوں کہ کچھ لوگ ایسی عمارت کو نشانہ بنا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک بار پہلے بھی ریذیڈنسی کو حادثاتی طور پر آگ لگی تھی اور چند سال پہلے زلزلے سے نقصان پہنچا لیکن دہشت گردی کے واقعہ میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا، جلد انکوائری کر کے دو روز میں حقائق قوم کے سامنے لا¶ں گا۔