لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ انتظامیہ کو ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ عدلیہ نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس بارے میں متعدد بار از خود نوٹس لئے کراچی اور کوئٹہ کی صورتحال پر سابقہ وفاقی حکومت کو واضح حکم دیا کہ دونوں صوبائی حکومتوں کی مدد کی جائے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ مگر اس وقت کی وفاقی حکومت کو واضح حکم دیا کہ دونوں صوبائی حکومتوں کی مدد کی جائے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کریں مگر اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ نئی حکومتوں کو بھی اسی چیلنج کا سامنا ہے جو ان کی ذمہ داری ہے بلوچستان میں یونیورسٹی کی طالبات اور بانی پاکستان کی رہائش گاہ پر حملے ہوئے اس تشویشناک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری اور پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں تقاریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جمہوریت کے فروغ کا دارومدار بھی قانون کی حکمرانی پر ہے یہ اسی صورت ممکن ہے جب تمام ریاستی ادارے اپنی متعین حدود میں رہ کر کام کریں اگر کوئی ادارہ دوسرے ادارے کے اختیارات میں مداخلت کرتا ہے تو یہ قانون کی حکمرانی سے متصادم بات ہوگی۔ ریاست کی پالیسیاں اعلیٰ طرز حکمرانی کیلئے ہونی چاہئے سپریم کورٹ نے آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ہمیشہ قانون کی حکمرانی پر زور دیا سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009ءاور اس کے بعد کے کئی فیصلوں نے ماورائے آئینی اقدامات اور طالع آزماﺅں کا راستہ روکنے کی بھرپور سپورٹ کی۔ نظریہ ضرورت کا تصور ماضی کا قصہ بن چکا اب آئین اور صرف آئین پر عمل ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں 3 نومبر 2007ءکے ماورائے آئین اقدامات کی توثیق نہ کرنے پر پارلیمنٹ کے کردار کو بھی سراہا ملک کا جمہوری نظام اس وقت فروغ پائے گا جب تینوں ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار مگر مکمل ہم آہنگی سے اپنے فرائض ادا کریں گے۔ یہ عدلیہ کی بطور ادارہ ذمہ داری ہے کہ عوام نے اس ادارے پر جو اعتماد کیا ہے اس کو کبھی ختم نہ ہونے دیا جائے۔ اس وقت عدلیہ کو سب سے اہم مسئلہ مقدمات نمٹانے میں تاخیر ہے ضلعی عدلیہ کے ججز محنت کے ساتھ مقدمات کو بروقت نمٹائیں۔ کیونکہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے انہوں نے عدلیہ کی آزادی اور بحالی میں وکلاءکے کردار کو کلیدی قرار دیا اور کہا کہ وکلاءکے پروفیشن کی جو آج عزت ہے شاید 10 سال پہلے نہ تھی وکلاءنہ صرف عدلیہ کی بحالی بلکہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیلئے بھی کام کیا وکلاءکی جدوجہد سے ان کے بیٹے کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ وکلاءبرادری کو عدلیہ کی سپورٹ کرتے ہوئے آئندہ بھی انصاف کی عمل داری کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں وکلاءکو لائسنس اور پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں تربیت مکمل کرنے والے ضلعی عدلیہ کے پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ججز میں سرٹیفکیٹ تقسیم کئے۔ جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ ایک خاندان کی طرح ہے جبکہ ملک بھر کے وکلاءقانون کی حکمرانی کیلئے عدلیہ کے ساتھ مضبوط کر رہے ہیں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کے ججز اعلیٰ معیار کے فیصلے کریں اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بناکر اپنے اور اپنے ادارے کیلئے نیک نامی کمائیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے دو ترقی پذیر ممالک میں عدلیہ کے کردار کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ طرز حکمرانی کا قانون کی حکمرانی سے گہرا تعلق ہے۔ تقریب سے اینڈی ولیم، احمر بلال صوفی اور مشتاق عارف نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی جسٹس ریٹائرڈ جمشید علی شاہ نے اکیڈمی کے تربیتی پروگراموں کے بارے میں بتایا این این آئی کے مطابق جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ انصاف کیلئے ہر قمت ادا کرنے کو تیار ہیں چاہئے آسمان میں کیوں نہ گر پڑے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہے۔ طالبات کی ہلاکتوں اور بولان میڈیکل کمپلکس پر حملہ تشویشناک ہے۔ میرے صوبے میں معصوم لوگ مر رہے ہیں جس پر دل دکھی ہے۔جسٹس افتخار نے کہا کہ کراچی اور کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی افسوسناک ہے، عدلیہ صرف فیصلے دے سکتی ہے، اسکے ہاتھ میں بندوق نہیں۔ ملک میں دہشت گردی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، عوام ملک میں قانون کی عملداری چاہتے ہیں، عدلیہ پر ان کا اعتماد خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا دہشت گردی ملک میں انتشار کا باعث بن رہی ہے۔