فٹبال کا عالمی کپ ان دنوں برازیل میں جاری ہے جبکہ ہاکی کا میگا ایونٹ ہالینڈ میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ میگا ایونٹس میںپاکستانی ٹیمیں شامل نہیں ہیں۔ تاہم ”خوش آئند“ بات یہ ہے کہ دونوں میگا ایونٹس کودیکھنے کے لئے ہماری کھیلوں کی تنظیموں کے اعلی عہدیداران برازیل اور ہالینڈ میں موجود ہیں۔ فٹبال جو 200 سے زائد ممالک میں کھیلا جاتا ہے اس میں پاکستان کی انٹرنیشنل رینکنگ 164 ویں نمبر پر ہے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر فیصل صالح حیات اور سیکرٹری احمد یار لودھی کھیل کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے بلند و بانگ دعوﺅں کے نتائج قومی اور جونیئر سطح میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ قوم کو ابھی مزید کتنے سال بہتر رزلٹ کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر فیصل صالح حیات کے اے ایف سی اور فیفا میں اچھے تعلقات ہیں جس بنا پر پی ایف ایف کو بھاری گرانٹ مل جاتی ہے اور انہوں نے ان تعلقات کی بنا پر بحرین سے تعلق رکھنے والے کوالیفائیڈکوچ محمد شملان کی خدمات تو حاصل کر لیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ فیڈریشن کے صدر قومی کوچ کی فلسطین میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں انٹری نہ کروا سکے۔ قومی کھلاڑیوں کو بغیر کوچ کے ہی ٹورنامنٹ میں کھیلنا پڑا۔ شملان کا معاہدے کے بعد پہلا انٹرنیشنل ایونٹ تھا۔ قوم آج تک منتظر ہے کہ پاکستان فٹبال ٹیم کسی میگا ایونٹس میں شرکت کرے۔ قوم کا یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا اس بارے میں شاید فیڈریشن کے اعلی عہدوں پر فائز عہدیداران بھی نہ بتا سکیں جو قابل افسوس مقام ہے۔ فیصل صالح حیات آٹھ نو سال میں فیڈریشن کے لیے پیسہ تو بہت لیکر آئے لیکن ٹیم کو وننگ ٹریک پر نہ لا سکے۔
دوسری جانب ہاکی جس میں پاکستان کا ماضی بڑا ہی تابناک رہا ہے، چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن پاکستان ٹیم ہالینڈ میں منعقدہ ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم رہی اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی اس بارے میں قوم بخوبی آگاہ ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس کھلاڑیوں کی وہ نرسری ہی موجود نہیں جن کی مدد سے ہم اپنے کھوئے ہوئے اعزازات دوبارہ حاصل کر سکیں۔ درخشاں روایت کی حامل پاکستان ہاکی ٹیم میگا ایونٹ میں تو شریک نہ ہو سکی جسے کسی حد تک قوم نے قبول کر لیا۔ کیونکہ 2010ءکے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم نے آخری پوزیشن حاصل کی تھی آخری پوزیشن حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ پاکستان ٹیم ورلڈ کپ جیسے ایونٹ سے ہی باہر رہے اور جب تک ہمارے پاس ورلڈ کلاس کھلاڑی نہ آ جائیں ہمیں کسی بھی ایونٹ برائے شرکت ٹیم کو نہیں بھجوانا چاہیے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان ہاکی کو درست کرنے کے لیے سلیکشن کمیٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے والے چیف سلیکٹر کی زیر قیادت ہالینڈ میں ویٹرنز کے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے ویٹرن الیون نے انتہائی مایوس کیا۔ نامکمل تیاری اور سیر کی غرض سے ہالینڈ جانے والی ویٹرن ٹیم کے کھلاڑی ہی پورے نہ ہو سکے اور اسے پہلے میچ میں جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کے ہاتھوں 24 گول کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ افسوس اس رزلٹ پر ٹورنامنٹ انتظامیہ کو ہماری ویٹرن الیون کو ہی ٹورنامنٹ سے آوٹ کرنا پڑ گیا۔ افسوس یورپ میں جہاں آج بھی پاکستان کی پہچان ہاکی ہے اس کی ٹیم جس کے کھلاڑیوں نے ماضی میں پاکستان کو ورلڈ، اولمپک اور ایشین گیمز جیسے ٹائٹل جتوا کے دیئے وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔
فٹبال کی طرح ہاکی فیڈریشن کے عہدیداران نے ہالینڈ کے سرد موسم کا نہ صرف لطف اٹھایا بلکہ چھ ماہ کی شاپنگ بھی مکمل کی۔ امیدواثق کہ ایک نہ ایک دن سب کو میگا ایونٹس میں عدم شرکت کا جواب دینا ہی ہوگا۔