پنجاب بجٹ اور کنول

بجٹ آنے سے پہلے ہی پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان نے محمود الرشید کی قیادت میں بجٹ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ انہوں نے بجٹ سنے بغیر ہنگامہ کیا اور بجٹ پڑھے بغیر دستاویزات پھاڑ دیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے شرمناک غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا تو پھر قومی اسمبلی میں خورشید شاہ کو بھی قائد حزب اختلاف رہنے کا حق نہیں ہے۔ وہ بہت مخالف جعلی اور منافقانہ بیانات دیتے ہیں۔ نہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مخالف ہیں نہ ان کے حامی ہونے کی خبر ہوتی ہے۔ بتایا تو جائے کہ ان کا موقف کیا ہے؟ اپنی باری کا انتظار ہو رہا ہے۔ یہاں بار بار آنے کو باری کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے اقتداری ڈسپلن بھی بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔ چودھری نثار ایسے ہی قائد حزب اختلاف تھے مگر وہ خورشید شاہ سے ہزار درجے بہتر تھے خورشید شاہ سے تو مولانا فضل الرحمن بھی بہتر تھے۔ تینوں صورتوں میں کسی نہ کسی صوبے میں ان کی حکومت تھی۔ مولانا کے وقت صوبہ سرحد، چودھری نثار کے زمانے میں پنجاب اور اب خورشید شاہ کی اپوزیشن میں۔ سندھ.... جمہوریت زندہ باد۔ اسے زیادہ سے زیادہ سیاسی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ اتنی جمہوریت تو فوجی حکومت میں بھی ہوتی ہے۔ اسمبلیاں ہوتی ہیں اور ممبران منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اسی طرح کا انتخاب سیاسی حکومت میں ہوتا ہے۔
مگر پنجاب بجٹ سے پہلے ہی اپوزیشن کا اجتماع ایک روائتی ہنگامے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ محمودالرشید جماعت اسلامی کے آدمی ہیں۔ اعجاز چودھری کی مدد ان کو حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے اسلم اقبال کے لئے میرے دل میں عزت ہے جیسے ق لیگ کے وزیر علیم خان کے لئے بھی ایک نرم گوشہ ہے۔ اسلم اقبال کو وزیر عامر محمود نے بنوایا تھا اور اب انہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ بھی عامر محمود نے لے کے دیا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی پسندیدہ عائلہ ملک کو عامر محمود کی اشیر باد حاصل ہے۔ انہوں نے اسے اینکر پرسن دنیا ٹی وی بنایا۔ اب بھی عامر کی مہربانیاں جاری و ساری ہیں۔ عامر محمود عمران کے بہت قریب ہے۔ بہت قدرومنزلت بھی عامر محمود کی اسلم اقبال کے دل میں ہے۔ اسلم ایک دوست دار آدمی ہے۔ سرکاری ممبران ہر بجٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے لئے بجٹ سننے کا تکلف بے معنی ہے۔ شہباز شریف بجٹ بڑھنے کی کوشش میں نڈھال مجتبیٰ شجاع الرحمن کے لئے پانی کا گلاس خود لے کے گئے۔ میرا خیال ہے کہ پانی بھی مجتبیٰ کو انہوں نے خود پلایا ہو گا۔ کیونکہ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ جبکہ مجتبیٰ کو اب تک بجٹ پڑھنے کا بہت تجربہ ہو چکا ہے۔ اگلا بجٹ کسی اور سے پڑھوایا جائے تو بہتر ہو گا۔ فوجی حکومت میں بھی بجٹ پیش کیا جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ برائے نام اپوزیشن ممبران مخالفت کرتے ہیں۔ باقی سارے حمایت کرتے ہیں۔ اس میں کسی کا قصور بھی نہیں ہے کہ یہ وہی بجٹ ہوتا ہے جو پچھلے سال پیش کیا گیا تھا۔ بجٹ کا استعمال حکمران اور ان کے من پسند افسران کرتے ہیں۔ دوسروں کو اقتدار کے جنگل میں پیڑ گننے کی اجازت ہوتی ہے۔ ”اعداد و شمار۔“ آم کھانے کی خواہش وہ چھپ چھپا کر ہی پوری کرتے ہیں۔ ورنہ عموماً یہ کہا جاتا ہے تم آم ”چوپو“ تمہیں پیڑ گننے کی ضرورت کیا ہے۔ جنگل سے یاد آیا کہ قومی اسمبلی میں نواز شریف کے آنے پر یہ نعرے کم لگے۔ لگے بھی تو آواز نہیں گونجی۔ شیر آیا، شیر آیا۔ چودھری نثار سے نواز شریف کی شکر رنجی چل رہی ہے۔ ممبران قومی اسمبلی سہمے ہوئے تھے۔ اسحاق ڈار نے بجٹ مجتبیٰ شجاع الرحمن سے بہتر پڑھ لیا تھا مگر تب چودھری نثار اٹھ کر چلے گئے تھے۔ اس بار اسحاق ڈار بھی ڈاروں و چھڑی کونج کی طرح لگ رہے تھے اور سپیکر ایاز صادق بھی ایاز کاذب لگ رہے تھے۔ وہ اس بات پر شرماتے نہیں۔ کسی نے انہیں حوصلہ دیا ہے کہ صبح کاذب بھی تو ہوتی ہے۔ بے چارے جمشید دستی اس ڈر سے بیٹھ گئے کہ سارجنٹ انہیں اسمبلی سے باہر پھینکنے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔ نواز شریف کو اسحاق ڈار کا بڑا خیال ہے کہ وہ ان کے سمدھی ہیں۔ نواز شریف کا داماد ان کے بیٹوں کے ساتھ لندن میں کاروبار کرتا ہے۔ مگر نواز شریف چودھری نثار سے بھی گھبراتے ہیں۔ نجانے اس میں کیا ”سانجھ“ ہے؟ میں اس حوالے سے ایک الگ کالم لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ویسے میری ہمدردیاں چودھری نثار کے ساتھ ہیں۔
جنگل میں شیر کی بات ہو رہی تھی۔ اسمبلیاں بھی اب سیاسی جنگل کا منظر پیش کرتی ہیں ایک شریف آدمی جنگل میں تھا۔ واضح رہے کہ کہ اس شریف آدمی کا شریف فیملی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم اکیلے اور خالی ہاتھ ہو اور جنگل میں ہو۔ اگر سامنے سے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ پھر پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے کیا کرنا ہے جو کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔ شیر دھاڑ رہا ہے اور لوگ دھاڑیں مار رہے ہیں۔ مجتبیٰ شجاع الرحمان کا کام صرف بجٹ پڑھنا تھا اور وہ بھی اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ پچھلے دور میں وہ وزیر تعلیم تھے مگر بجٹ انہوں نے ہی پڑھا۔ یہ خدمت وزیر تعلیم رانا مشہود سے لی جاتی۔ تو وہ شہباز شریف کے ڈر سے بجٹ پڑھنے کو تیار ہو جاتے مگر انہیں سٹریچر پر پنجاب اسمبلی میں لایا جاتا اور جانے کیلئے وہ شہباز شریف کے کندھے سے لگ کے جاتے۔ رانا ثناءاللہ اور رانا محمد اقبال کی ہلاشیری کے باوجود رانا مشہود کی رانیں (ٹانگیں) کانپنا بند نہ کرتیں۔ اس کیلئے رانا ارشد بھی شرمندہ ہیں۔
ایک خوشی مجھے یہ ہوئی کہ بجٹ میں 1122 کا سلسلہ دوسرے اضلاع تک پھیلانے کیلئے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں۔ جن کیلئے شہباز شریف مبارکباد کے بہت مستحق ہیں۔ آغاز میں کئی خوشامدی 1122 کو بند کرنے کے مشورے دے رہے تھے کہ یہ چودھری پرویز الٰہی کے زمانے کا منصوبہ ہے۔ شہباز شریف کے کام بھی اگلے ادوار میں جاری رہنا چاہئیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے زیرتکمیل کاموں کو مکمل کرنے اور انہیں فروغ دینے میں لوگوں کا بھلا ہو گا۔ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں۔ کام بند نہیں ہونے چاہئیں۔ ہر ملک میں خدمت خلق کے منصوبے جاری رہتے ہیں۔
حمزہ شہباز شریف کی بات بھی پسند آئی کہ گجرات میں بھی لاہور کے برابر ترقیاتی کام ہوں گے وگرنہ یہ شہر چودھریوں کا ہے۔ سب شہر پاکستان کے ہیں۔ مرے قبیلے کے سردار نے 65 کی جنگ ستمبر میں لکھا۔
پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو
اداکارہ ایم پی اے کنول نے بجٹ کی دوسرے سرکاری ممبران کی طرح تعریف کی ہے۔ یہ تعریف کوئی معنی نہیں رکھتی کہ سب کرتے ہیں۔ کنول خواتین کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر آئی ہیں۔ ان کو ٹکٹ دلانے کیلئے کئی بااثر لوگ صحافی اور سیاستدان دعویٰ کرتے ہیں۔ کنول نے سب کا شکریہ ادا کیا ہے مگر اس کے ساتھ شاہدہ منی اور اداکارہ میرا نے بھی بجٹ کی تعریف کی ہے۔ وہ بھی شاید ایم پی اے بننا چاہتی ہیں۔ اب تو سارا کریڈٹ کنول نے لے لیا ہو گا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے کیلئے تقاضے کیا ہوتے ہیں وہ اداکارہ کنول بہتر جانتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن