بزرگ سیاستدان ائر مارشل (ر) اصغر خان کے کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو وفاقی حکومت کی جانب سے اگرچہ دوٹوک الفاظ میں یقین دلا دیا گیا تھا کہ انٹیلی ادارے آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ مستقل طور پر ختم کیا جا چکا ہے مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ جمہوری حکمرانوں کی بدانتظامیوں، من مانیوں اور ان کے اللّے تللّوں کے باعث عوام کے دلوں میں ان سے خلاصی کیلئے پیدا ہونے والی تمنا کو آج بھی ایسے ہی کسی ادارے کے کرتا دھرتاﺅں کی جانب سے جمہوریت کو گندہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے آج بھی اپنے مفادات کے اسیر بعض کٹھ پتلی سیاستدانوں کی ڈوریاں ہلتی نظر آتی ہیں اور آج بھی بعض قلمکاروں کے قلم قومی مفادات کے تحفظ کے ڈھکوسلے کے تحت ڈوریاں ہلانے والوں کی زبان بن کر جمہوری حکمرانی کے خلاف کہیں ڈھکے چھپے انداز میں اور کہیں بے شرمی کی ساری حدیں پھلانگتے ہوئے پھسلتے نظر آتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ایک دانشور سیاستدان کا قلم ڈاکٹر طاہر القادری کی رطب اللسانی میں کچھ زیادہ ہی پُرجوش نظر آیا تو میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ رازداری میں فرمانے لگے ”جناب بڑے گھر سے یہی حکم آیا ہے سو اس کی تعمیل ہو رہی ہے۔“ اگر کسی قلمکار کو جمہوریت کے تحفظ کیلئے بزرگ قوم پرست سیاستدان محمود خاں اچکزئی کی شریفین (بشمول جنرل راحیل شریف) کے لئے ایک صفحے پر آنے کی اپیل ہضم نہیں ہوتی اور وہ حفظِ مراتب کا خیال کئے بغیر لٹھ لے کر ان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور سسٹم کی بقا کی خاطر سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے ان کے ماضی کے کردار کو بھی گالی بنا کر پیش کرتے ہیں تو ان کے قلم سے ادا ہونے والے الفاظ خود چغلی کھا رہے ہوتے ہیں کہ یہ الفاظ کس جانب سے ان کے قلم کی نوک تک لائے گئے ہیں۔ بعض دانشور قلمکاروں نے ایک میڈیا گروپ کے تنازعہ میں سسٹم پر ملبہ ڈالنے کے لئے جمہوری حکمرانوں کے نام بگاڑنے کے لئے ایسے ایسے غلیظ الفاظ استعمال کئے کہ ان سے تعفن کے بھبھوکے چھوٹتے نظر آئے۔ اگر ایسے دانشور قلمکار جو شاید ذاتی طور پر ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہوں گے، ایک ہی دن اشاعت کی غرض سے بھجوائے گئے اپنے کالموں میں جمہوری نظام سے وابستہ سیاستدانوں کو گالی دینے کے لئے ایک ہی مفہوم والا لفظ استعمال کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ الفاظ کس کے ذہنِ رسا کی پیداوار ہیں جو اپنے کٹھ پتلی قلمکاروں کے قلم سے اگلوائے جا رہے ہیں۔
اگر اس وقت بعض سیاستدانوں، دانشوروں اور قلمکاروں کے حلقوں کی جانب سے جمہوریت کے لئے فضا مکدّر بنائی جا رہی ہے تو ایک ہی طرح کے الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ کئے جانے والے شور شرابا سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ ”یہ بجلی کون گراتا ہے، یہ طوفان کون اٹھاتا ہے۔“ بھئی! قومی مفادات کے نام پر اپنے مفادات کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا۔ بے شک جمہوریت کے وہ ثمرات کبھی عوام تک نہیں پہنچ پائے جو اس کے مفہوم میں موجود ہیں اور بے شک جمہوریت کو گندہ کرنے میں اس سے وابستہ بعض مفاد پرست سیاستدانوں کا ہی قصور ہے جو جمہور کی حکمرانی کا مینڈیٹ لے کر اپنی سلطانی کے اسیر بن جاتے ہیں اور جمہور کو راندہ¿ درگاہ بنا دیتے ہیں۔ بے شک جمہور کی حکمرانی جمہور کے لئے آج تک خواب بنی ہوئی ہے مگر ان تمام تر خرابیوں کے باوجود کسی فردِ واحد کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے اور کس نے دیا ہے کہ وہ آ ئین کے تحت قائم سسٹم کو کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت چلتا کرے اور ہاتھ میں تھامی بندوق کے ذریعے حاصل ہونے والی طاقت کے زور پر ایک ایسا آمرانہ نظام مسلط کر دے جس کی نہ آئین میں کوئی گنجائش ہوتی ہے اور نہ جمہور کے دلوں میں اس کی تمنا ہوتی ہے۔ اگر انہیں جمہور کی تائید و حمایت حاصل ہونے کا زعم ہوتا ہے تو اپنی خواہش کے مطابق سسٹم کی تبدیلی کا ان کے پاس بہت آسان راستہ موجود ہے جو بذریعہ انتخابات تبدیلی کا راستہ ہے۔
میں ذاتی طور پر بھی جمہوریت کا بطور سسٹم ناقد ہوں اور انہی سطور میں اپنی اس رائے کا اظہار کرتا بھی رہتا ہوں کہ اگر جمہوریت کی روح کے مطابق اس کے ثمرات جمہور تک نہیں پہنچ پا رہے اور اس حکمرانی میں عوام کی مایوسی و ویرانی بڑھ رہی ہے، ان کے روٹی روزگار کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو رہے ہیں اور سلطانی¿ جمہور میں اشرافیہ فروغ پا رہا ہے تو یہ نظام کوئی حرفِ آخر نہیں ہے، اس کی جگہ کسی ایسے دوسرے نظام کو آزمانے میں کوئی مضائقہ نہیں جو راندہ¿ درگاہ عوام کا مقدر سنوارنے میں کارآمد ہو سکتا ہو، مگر اس کے لئے اتھّل پتھّل اور غتر بود کے بجائے جمہوری آئینی طریقے سے بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ہمارا موجودہ آئین چونکہ پارلیمانی جمہوری نظام کا رکھوالا ہے اس لئے اس آئین کے ہوتے ہوئے ہمیں جمہوریت کو اس کی خامیوں کے باوجود قبول کئے رکھنا ہو گا اور اگر اب ہمارا اس نظام میں گزارا نہیں ہو رہا تو پھر پارلیمانی، صدارتی، شورائی یا سلطانی (بادشاہت) سمیت جس بھی نظام کی ہم اپنے بہتر مستقبل کی خاطر ضرورت محسوس کر رہے ہیں، اسے لانے کے لئے ہمیں پہلے آئین کو اس نظام میں ڈھالنا ہو گا، یہ کام کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے ہمیں عوام سے آئین ساز پارلیمنٹ کا مینڈیٹ لینا ہو گا، موجودہ پارلیمنٹ تو ہرگز اس کی مجاز نہیں کہ وہ نئے سسٹم پر مبنی نیا آئین وضع کرے۔ اگر یہ پارلیمنٹ آئین میں موجود مروجہ جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت عوام کے مینڈیٹ سے وجود میں آئی ہے تو اس کے ہوتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت کی جگہ کسی دوسرے نظام کی وکالت کرنا اور جمہور کی حمایت حاصل ہونے یا بندوق کی طاقت رکھنے کے زعم میں اس نظام کو لاگو کرنے کی اُچھل کود کرنا ہی اتھّل پتھّل کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور اس اُچھل کود کے پیچھے اگر کسی ریاستی ادارے کا عمل دخل ہو جو اس کے آئینی اور قانونی فرائض میں شامل بھی نہ ہو تو پھر جائزہ لینا پڑے گا کہ ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے کو قومی مفادات کا لیبل لگا کر پروان چڑھانے والوں کا کیسے اور کہاں راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں یقین دہائی کرائے جانے کے باوجود کسی ریاستی ادارے کو سیاست، وکالت، صحافت کی صفوں میں پروان چڑھائی گئی اپنی پُتلیاں نچانے کا شوق ہے تو پھر کوئی بھی سسٹم اس شوق کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
میں نے آج ”وقت نیوز“ کے پروگرام ”نوائے وقت ٹو ڈے“ میں بھی ایک محترم لائیو کالر کے استفسار کے جواب میں یہی عرض کیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری عوام کی فلاح اور ملک کی بقا کی خاطر کوئی انقلاب لانے کا جذبہ رکھتے ہیں تو پہلے وہ اپنی ذات پر یہ انقلاب لائیں، اپنی کینیڈا کی شہریت کو خیرباد کہیں اور جس ارضِ وطن پر وہ انقلاب لانا چاہتے ہیں اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں، اس کے راندہ¿ درگاہ عوام میں گھل مل کر ان جیسے مسائل کا خود بھی سامنا کریں اور ان کے گھمبیر مسائل کی گہرائی کو محسوس کر کے ان کے حل کی کوئی ایسی قابل عمل تدبیر ڈھونڈیں جو کسی اور کے ایجنڈے پر مبنی اتھّل پتھّل والی تدبیر نہ ہو۔ اگر ان کا زعم ہے کہ اتھّل پتھّل کی ڈوریاں ہلانے والے انہیں ریڈ کارپٹڈ استقبال دیتے ہوئے کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار کی مسند پر بٹھا دیں گے تو ایسا زعم پہلے بھی بڑوں بڑوں کا ٹوٹ چکا ہے کیونکہ ماورائے آئین اقدام والے کسی اور کی نہیں، بس اپنی راہ ہی ہموار کرتے ہیں۔ علامہ صاحب اور ان کی قبیل کے دوسرے سیاستدانوں نے ایسی سوچ والوں کو اپنا کندھا پیش کرنا قبول کر لیا ہے تو یہ خلقِ خدا کے راج والا قومی مفاد کیسے بن گیا؟