ان دنوں کالم لکھنے کا سلسلہ اکثر موقوف رہتا ہے اس لئے ذہن میں آنے والے کئی اہم موضوعات میرے کالم کا حصہ نہیں بن پائے۔ کئی بار طبیعت بنتی ہے۔ کالم لکھنے کو قلم بھی اٹھاتا ہوں مگر پھر کوئی ایسی مصروفیت آڑے آ جاتی ہے یا طبیعت اچانک مضمحل ہو جاتی ہے کہ صریر خامہ کی بس حسرت ہی رہ جاتی ہے۔ میرے پاس احباب کی کتابوں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ ان پر کالم لکھنے کے تقاضے بھی بار بار سن بیٹھا ہوں مگر دل جم ہی نہیں پا رہا۔ پچھلے دنوں شاہد رشید صاحب نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے شروع کئے گئے نظریاتی سمر کیمپ میں مدعو کیا۔ وہاں نوجوان نسل کی جانب سے ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے بے پایاں عزم کا مشاہدہ کیا تو مرحوم مجید نظامی کا مشن یاد آیا کیونکہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں نظریہ پاکستان کو راسخ کرنے کے لئے ہی انہوں نے 16 سال قبل نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم پر نظریاتی سمر کیمپ لگانے کا آغاز کیا تھا جس کا اب جامع سلیبس بھی تیار ہو چکا ہے۔ میرے ذہن میں تجسس پیدا ہوا کہ کیا ایسا ہی سلیبس پورے ملک کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں رائج نہیں ہونا چاہئے جس میں بچوں بچیوں کو والدین اور اساتذہ کے ساتھ محبت اور احترام کا درس دینے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا گیا ہے اور تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کی جدوجہد کو اجاگر کرکے دو قومی نظریہ اور پھر نظریہ پاکستان کے مقاصد و اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس سلیبس نے نظریاتی سمر کیمپ میں آنے والے مختلف تعلیمی اداروں کے بچوں بچیوں میں جتنا اعتماد اور شائستگی پیدا کر دی ہے وہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور ثابت قدم رہنے میں ان کی معاون ہو گی۔ محترم مجید نظامی کا یہی مشن تھا کہ ملک کی نئی نسل کے ذہنوں میں نظریہ پاکستان راسخ کرکے ان میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا عزم اور اعتماد پیدا کیا جائے۔ یقیناً اس نہج پر تربیت پانے والی ہماری نوجوان نسل کو سیاسی، حکومتی قیادت سنبھالنے کا موقع ملے گا تو مفاہمت اور منافقت کی سیاست کی جانب ان کا دل کبھی مائل نہیں ہو گا۔ منافقانہ، مفاہمانہ سیاست نے ہمارے وطن عزیز کی جو درگت بنا دی ہے اور ہمیں اس وقت ملکی اور قومی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے معاملہ میں جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ ہم سے اپنی نوجوان نسل کی نظریاتی حوالے سے ذہنی نشو و نما کے زیادہ متقاضی ہیں۔ نظریاتی سمر کیمپ میں موجود بچوں بچیوں میں یہ عزم راسخ ہوتا دیکھ کر دل کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ ہماری یہ نسل اپنی ذہنی تربیت کے بل بوتے پر ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو اغیار کی جانب سے آنچ تک نہیں آنے دے گی۔ نظریاتی سمر کیمپ کی سرپرستی کرتے ہوئے ڈاکٹر رفیق احمد صاحب بھی اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس جوان جذبے میں سرشار نظر آئے اور جماعت الدعوة کے امیر حمزہ صاحب بھی اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے نئی نسل کی قائدانہ صلاحیتوں کو پختہ کرنے کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ میں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی اس تقریب میں بھی یہی تقاضہ کیا کہ نظریاتی سمر سکول کے تیار کردہ سلیبس کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں رائج کیا جائے اور آج ان سطور کے ذریعے بھی ذمہ دار حکومتی اکابرین سے یہی گزارش کر رہا ہوں کہ بی جے پی کی بھارتی حکومت کے دور میں پاکستان کی سالمیت کو ختم کرنے کی جو سازشیں چل رہی ہیں انہیں ناکام بنانے کے لئے جہاں ہمیں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے وہیں اب ملک کی نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنانا بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ دشمن ہماری نظریاتی سرحدوں پر زیادہ وار کر رہا ہے چنانچہ نظریاتی سرحدوں کی موثر انداز میں حفاظت نظریاتی سمر سکول کے تیار کردہ سلیبس کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں رائج کرکے ہی کی جا سکتی ہے۔ ایک بنی بنائی چیز آپ کو دستیاب ہے تو اسے رائج کرنے کے لئے بس ایک انتظامی حکم کی ہی ضرورت پڑے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں ارضِ وطن کے تحفظ کے لیے ایک نظریاتی ایٹم بم بھی دستیاب ہو جائے گا۔ پھر بسم اللہ کیجئے۔ ہاتھ لگی نیکی کمانے کا موقع تو ضائع نہ کریں۔
نظریاتی سمر کیمپ کی اس تقریب نے میرے ذہن کے اضمحلال کو بھی تر و تازگی میں تبدیل کر دیا ہے چنانچہ اسی جذبے نے مجھے گزشتہ روز پاکپتن کے نوجوان شاعر اور محقق پروفیسر نوید عاجز کی مرتب کردہ کتاب ”سوچ دا پتن“ کی تقریب رونمائی میں بھی شریک ہونے پر قائل کر لیا۔ راجا نیّر کا اصرار اپنی جگہ تھا اور اس تقریب کے حوالے سے اپنے ”گرائیوں“ کے دیدار کا جذبہ اپنی جگہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا چنانچہ اس تقریب میں یادوں کا سماں بندھ گیا۔ ہمارے محبوب کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اس تقریب میں کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے تو الفاظ کی روانی میں ابلاغ کے راستے کھلتے نظر آئے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف مہمان خاص کی حیثیت میں میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھی تقریب کی رونق بڑھا رہی تھیں تو ڈائریکٹر جنرل لائبریریز پنجاب ڈاکٹر ظہیر احمد بابر اچیچے پروہنے ہونے کے ساتھ ساتھ میزبانی کا فریضہ بھی ادا کر رہے تھے کہ اس تقریب کا اہتمام ان کے زیرسایہ قائداعظم لائبریری کے ہال میں ہی ہوا تھا۔ برادرم راجا نیر نے تقریب کے ہر مہمان کے لئے وہ سماں باندھا کہ تقریب میں شریک ہر فرد مہمان خصوصی بنتا گیا اور پھر عنایت عابد نے تو اپنے سوز و ساز والے ترنم سے حاضرین کے دل اپنی جانب کھینچ لئے۔ وہ میری پنجابی غزل
کندّھاں ا±تے مار کے لیکاں
خَورے کنہو±ں روز ا±ڈیکاں
پر ”مال کونس“ کی لَے جما رہے تھے تو صدر مجلس، مہمانانِ خاص اور حاضرین سمیت ہال میں موجود ہر فرد وجد میں ڈوبا نظر آیا۔ اف کیا قیامت ڈھا دی عنایت عابد کی خوش الہانی نے، مجھے محسوس ہوا کہ اس نے میری غزل مجھ سے چھین کر اپنے نام کر لی ہے۔ اسی وجد کے ماحول میں مجھے خطاب کی دعوت ملی تو کیا کہوں، کچھ نہ سوجھ پایا ”سوچ دا پتن“ پر تبصرے کا حق بھی ادا نہ کر پایا۔ امید ہے کہ نوید عاجز میری اس سہو سے صرفِ نظر کر جائیں گے کہ مجموعی طور پر ان کی رونمائی کا مقصد تو اس تقریب کے ذریعے پورا ہو گیا ہے۔ انہوں نے پاکپتن کے شعراءکو کونوں کھدروں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا چیدہ چیدہ اردو پنجابی کلام اپنی دونوں تحقیقی کتابوں کی زینت بنا دیا ہے تو یہی اپنی دھرتی کے لئے ان کی بڑی خدمت ہے۔ بابا فرید، وارث شاہ اور سخی چن پیر سے منسوب یہ دھرتی ادب کی کاشت کے لئے بہت زرخیز دھرتی ہے چنانچہ ادب کی چاشنی اس دھرتی کے ہر باسی کے انگ انگ میں بسی نظر آتی ہے اس لئے اس دھرتی کے ہر باسی کا میرے دل میں شاعر کا مقام ہے چاہے وہ باضابطہ شاعر ہے یا نہیں۔ مجھے تو اس ناطے سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے کہ نوید عاجز کی کاوشوں سے میں باضابطہ شاعر بھی تسلیم ہو گیا ہوں ورنہ ”من آنم کہ من دانم“
گزشتہ ماہ میرے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے کلاس فیلو رضا صدیقی صاحب میرے آفس تشریف لائے اور اپنی کتاب ”کتابیں بولتی ہیں“ کا تحفہ میرے ہاتھ میں تھما گئے۔ وہ ”بولتا کالم“ کے ذریعے پہلے ہی خاصی شہرت پا چکے ہیں۔ خود بھی جاندار شاعر ہیں اور واپڈا کی پی آر شپ سے فراغت کے بعد ادب کی خدمت کے دیرینہ فریضے کی جانب واپس لوٹ آئے ہیں تو ان کی ادبی سرگرمیوں کے ناطے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع بھی ملنے لگا ہے۔ ”کتابیں بولتی ہیں“ نے جی سی ساہیوال کے کیسے کیسے تابناک چہرے آنکھوں کے سامنے گھما دیئے۔ گویا احباب کا میلہ لگ گیا ہے۔ جی سی ساہیوال کے اپنے ہمجولیوں اور سینئرز میں سے مشتاق صوفی، مظہر ترمذی ،زاہد رانا، جوزف سی لال، ریاض نغمی، طاہر نسیم جیسے شعر و سخن کے تارے جی سی ساہیوال سے نکل کر آسمانِ ادب پر جگمگائے جن میں ہم بھی کہیں اپنا آپ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ اب یادوں کی محفل سجی ہے تو اس کی رونق لگی رہے گی انشاءاللہ۔ یار زندہ، صحبت باقی۔