کالاباغ ڈیم۔حقیقت کیا ، فسانہ کیا ؟ (17)

کالاباغ ڈیم کے منصوبہ ساز کو ٹری بیراج کے زیریں علاقے میں ماحولیات کے تحفظ کیلئے پانی کی ضرورت سے لا تعلق تھے۔ اور نہ اس بارے میں انہیں کوئی فکر تھی۔کالاباغ ڈیم کے بارے میں ایک اور واہمہ جسے زیریں سندھ کے لوگ یقین کی حد تک درست خیال کرتے ہیں ، وہ کوٹری بیراج سے زیریں جانب اس منصوبے کے ماحولیات پر بُرے اثرات سے متعلق ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبہ ساز اس بات سے لاعلم تھے کہ کوٹری بیراج کے زیریں علاقوں میں ماحولیات اور وہاں مقیم لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کیلئے کتنا پانی درکار ہوگا۔ کوٹری بیراج دریائے سندھ پر آبپاشی کیلئے آخری ہیڈ ورکس ہے جسکے بعد دریا سمندر میں جاگرتا ہے۔ نومبر1984ءمیںجب کالاباغ ڈیم منصوبہ پہلی بار کابینہ میں پیش کیا گیا تو گورنر سندھ کی جانب سے اِ س منصوبے کے بارے میں جو سوالات اٹھائے گئے ، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اِس منصوبے کی تعمیر سے ڈیم کے زیریں جانب دریائے سندھ کے پانی کے بہاﺅ پر کیا اثر پڑے گا۔ گورنر سندھ کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات کا جائزہ لینے کیلئے اُس وقت کی وفاقی کابینہ نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وزارتی کمیٹی تشکیل دی ۔ جولائی 1986ء میں واپڈا نے سندھ حکو مت سے باضابطہ طو ر پر درخواست کی کہ اِ س حوالے سے معلومات اور اعدادو شمار مہیا کئے جائیں تاکہ کابینہ کمیٹی کیلئے سیلابہ کے علاقے پر کالاباغ ڈیم کے اثرات پر مبنی ورکنگ پیپر تیار کیا جاسکے ۔ واپڈا کویہ اعدادوشمار مہیا کرتے وقت صوبہ سندھ نے دریا کی کھاڑی میںساحلی علاقوں کے سمندر بُرد ہونے کا معاملہ بھی اُٹھا دیا ۔ نتیجتاً کالاباغ ڈیم کے کنسلٹنٹ نے سندھ کے مذکورہ علاقوں کا دورہ کیا اور صورت ِ حال کا جائزہ لے کر اس بارے میں ابتدائی ورکنگ پیپر تیار کیا۔”سیلابہ علاقے میں کاشتکاری پر ممکنہ اثرات اور دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی “ کے عنوان سے تیار کی گئی یہ رپورٹ جنوری 1988ءمیں سندھ حکومت سمیت متعلقہ فریقین کو ارسال کی گئی۔ دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندر کے کھارے پانی کے داخل ہونے کے بارے میں اس ورکنگ پیپر میں جو الفاظ درج ہیں ، وہ کچھ اس طرح سے ہیں :
”جہاں تک دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی کے چڑھ آنے کا تعلق ہے ، تودستیاب اعدادوشمار سے یہ واضح ہے کہ کھاڑی میں سمندری لہروں کے مضر اثرات اگھی مانی(Aghimani) سے زیریں جانب علاقوں تک محدود ہیں۔ اگھی مانی ٹھٹّھہ۔ سجوال پُل سے 3میل جبکہ کوٹری سے 87 میل زیریں جانب واقع ہے۔ یہی صورتِ حال موسمِ سرما کے دوران بھی برقرار رہتی ہے اور اس موسم میںکوٹری بیراج سے زیریں جانب دریائے سندھ میں پانی کا بہاﺅ نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ 1953-54ءمیں کئے گئے ایک فضائی سروے کے نتیجے میں کم و بیش سجوال تک نمکیات کے ڈھیر دکھائی دیئے جبکہ مجموعی طور پر اس مقام تک نباتات کے آثار بھی مفقود تھے۔
مذکورہ ورکنگ پیپر کے بارے میں سندھ حکومت نے اپنے ابتدائی تبصرے میں کالاباغ ڈیم کے کنسلٹنٹ کے نتائج پر عدم اطمینان کاا ظہار کیا ۔ 9فروری 1988ءکو سندھ حکو مت کے محکمہ آبپاشی و برقیات کیجانب سے تحریر کئے گئے خط کے ساتویں پیرا گراف میں لکھا ہے کہ : ”سمندر کے کھارے پانی کے اثرات کے بارے میں اخذ کیا گیا نتیجہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے ماضی میں سیلابی موسم کے دوران پانی کوٹری بیراج سے زیریں جانب خارج کیا جاتا رہا ہے ، جس کی وجہ سے دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی کو روکنے میں مدد ملی ہے ۔ وقت کیساتھ ساتھ کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کے اخراج میں کمی واقع ہورہی ہے جسکے نتیجے میں سمندری نمکیات کے اثرات مزید نمایاں ہوجائینگے۔ ایسی صورتحال میں مناسب اقدام یہی ہوگا کہ سمندر کے کھارے پانی کے اثرات کو مکمل طور پر ردّ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس بارے میں سائنسی بنیاد پر متعلقہ اعدادو شمار اکٹھا کرنے کی غرض سے پروگرام وضع کیا جانا چاہئے اور اگر یہ بات پایہ¿ ثبوت کو پہنچ جائے کہ سمندر کا کھارا پانی دریائے سندھ کی کھاڑی میں بالائی جانب بڑھ رہا ہے تو وفاقی حکومت کے اخراجات سے دریائے سندھ کے اوپر موزوں مقامات پر سمندری پانی روکنے کیلئے سٹرکچر تعمیر کئے جائیں۔“
سندھ حکومت کے ابتدائی تبصرے کے جواب میں واپڈا نے اپنی رائے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی داخل ہونے کا معاملہ واضح اور طے شدہ ہے۔ واپڈا کے باضابطہ جواب میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ” 1953ءمیں کولمبو پلان کے تحت کئے گئے فوٹو گرافک سروے میں دریائے سندھ کی کھاڑی کے بارے میں جو صورتحال سامنے آئی تھی، بالائی علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر کے بعد بھی اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اِس علاقے میں سمندری لہروں کے ذریعے کھارے پانی کا آنا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما کے دوران جب کوٹری سے زیریں جانب پانی نہیں چھوڑا جاتا ، تب بھی سمندری پانی کے اثرات اگھی مانی سے زیریں جانب واقع علاقوں تک محدود رہتے ہیں۔“ اپنی اس رائے کے باوجود واپڈا نے سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی و برقیات کی اس بات سے اتفاق کیا کہ دریائے سندھ کی کھاڑی میں واقع علاقوں اور اس سے متصل ساحلی پٹی میں ہمہ جہت ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کیلئے سائنسی مشاہدات پر مبنی پروگرام شروع کیا جاسکتا ہے۔“
کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ نے سندھ حکومت کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اس بارے میں وضاحت پیش کی کہ ”اس امر کے باوجود کہ کوٹری بیراج سے نچلی جانب ایک طویل عرصے سے کسی بھی ایک سال کے دوران پانی کا بہاﺅ 6ماہ سے زیادہ برقرار نہیں رہا ، لیکن اگھی مانی کے مقام پر نصب پیمائشی آلہ نے اُس علاقے میں کھارے پانی کی سطح میں کسی ایسی تبدیلی کی نشاندہی نہیں کی ، جو دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی میں اضافہ کی وجہ سے رونما ہوئی ہو۔“ اِسی اثناءمیں کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ نے جون 1988ءمیں ”سیلابہ علاقے میں کاشتکاری پر ممکنہ اثرات اور دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی“ کے عنوان سے مرتب کی گئی اپنی رپورٹ واپڈا کو جمع کرادی۔
1989ءمیں سی ڈی ڈبلیو پی/ ایکنک کے اجلاس میں کالاباغ ڈیم منصوبے کے پی سی II-پر بحث کے دوران سندھ حکو مت نے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا ، جس کا مقصد بدیہی طور پر کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ کے نتائج کی از سرِ نو توثیق تھا۔ چنانچہ مزید تحقیقی مطالعات کی ضرورت کا جائزہ لینے کیلئے ٹیکنیکل کمیٹی قائم کر دی گئی۔ مارچ 1990ءمیں ٹیکنیکل کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ، لیکن اس سے قبل ہی سند ھ حکومت نے مذکورہ کمیٹی کے سربراہ یعنی چیئرمین واپڈا کو اپنے 9نکات بھجوا دیئے ۔ 9ویں اور آخری نکتہ ”سندھ میں سیلاب سے بچاﺅ اور کوٹری کے زیریں علاقوں میں ماحولیاتی اثرات کے پیش نظر دریائے سندھ میں کوٹری سے سمندر کی جانب پانی کے اخراج کے حقیقی تخمینہ “ ،سے متعلق تھا۔تاہم ٹیکنیکل کمیٹی اِ س نتیجے پر پہنچی کہ مزید تحقیق اور مطالعات اُسکے دائرہ¿ اختیار میں نہیں آتے۔ جون 1990ءمیں سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی و برقیات کے سیکرٹری نے چیئرمین واپڈا کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ”ایکنک کی ہدایت پر قائم کمیٹی نے اپنے اجلاس میں نہ تو پہلے سے کئے گئے مطالعات پر غور و خوض کیا اور نہ ہی مستقبل میں اضافی تحقیقی مطالعات کا جائزہ لیا.... تحقیق اور مطالعات کیلئے موضوعات کی پہلے ہی نشاندہی کی جا چکی ہے ۔ مثلاً مینگروو کے جنگلات پر ماحولیاتی اثرات ، ماہی پروری ، ساحلی علاقوں کا سمندر بُرد ہونا اور دیگر پہلو....“
اسکے چند ماہ بعد مارچ 1991ءمیں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کئے گئے جس میں ماحولیاتی تحفّط کیلئے کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کے پابندی یا باقاعدگی کے ساتھ اخراج کی ضرورت کو بجا طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
محترم قارئین ! میں نے واپڈا اور سندھ حکومت کے درمیان ہونیوالی خط و کتابت کو آپکے سامنے تفصیلاً بیان کیا ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ زیر غور تھا تو کوٹری کے زیریں علاقوں میں ماحولیاتی اثرات پر کافی بحث و تمحیص کی گئی ۔ بالآخر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تاریخی معاہدے میں کوٹری سے نچلی جناب خارج کرنے کیلئے پانی کی کم از کم مقدار کا تعین کرنے کیلئے اضافی مطالعات کی ضرورت کوبھی تسلیم کر لیا گیا۔ لہٰذا یہ معاملہ کبھی بھی کالاباغ ڈیم منصوبے کے پالیسی سازوں سے اوجھل نہیں رہا ۔ تاہم اس بارے میں کالاباغ ڈیم کے پالیسی سازوںکی سندھ حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رہی کہ اس معاملے کو احسن انداز میں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔یہ بات بھی عیاں ہے کہ جب بھی آبی مسائل کے بارے میں قومی سمجھوتے کی طرف پیش قدمی کی گئی تو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے مسائل کو عملی طور پر حل کرنا ضروری ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن