لیلة القدر کی تلاش کا سہل طریقہ‘ اعتکاف

Jun 16, 2017

یوں تو رمضان المبارک کے پورے مہینے کے اندر کثیر خیر و برکت موجود ہے لیکن اس کے آخری عشرہ کے متعلق قرآن پاک میں سورة القدر کے اندر اللہ عزوجل نے فرمایا ”لیلة القدر خیر من الف شہر“ عربی زبان میں ”الف“ ہزار کو اور ”شہر“ مہینہ کو کہتے ہیں۔ یعنی فرمایا گیا کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اور ہزار مہینوں کے 84 سال اور 4 ماہ بنتے ہیں۔ عام طور پر انسانوں کی عمریں اس سے بھی کم ہوتی ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی امت پر خداوند رحیم و کریم کی اتنی زیادہ مہربانی ہے کہ وہ ہر سال اپنے حبیب ﷺ کی امت کو ایک مرتبہ لیلة القدر نصیب فرماتا ہے جس کے اندر عبادت گزار مسلمان تسبیح و تہلیل‘ تلاوت و نوافل اور ذکر و اذکار کے ذریعہ اسی سال سے بھی زیادہ عبادت کرنے کا اجر و ثواب کما لیتا ہے‘ لیلة القدر کو تلاش کرنے کا ”سہل طریقہ“ یہ ہے کہ آخری عشرہ کا اعتکاف کر لے۔ اس طرح آخری دس دن مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت میں گزار کر شب قدر کی خیر و برکت سے مستفید ہو سکے گا۔ حضور اقدس ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف بیٹھنے کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آخری دس روز (دن اور رات) مسجد کے ایک کونے میں گزارتے‘ آپ اتنی پابندی سے اعتکاف میں بیٹھتے کہ ایک مرتبہ نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دس دن اعتکاف کی بجائے بیس دن کا اعتکاف فرمایا (صحیح بخاری باب الاعتکاف)
اعتکاف کے معنی ہیں ”جھک کر یکسوئی کے ساتھ بیٹھ رہنا“ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب اپنوں اور بیگانوں‘ گھر بار اور دوست احباب‘ سیاسی و سماجی اور کاروباری مصروفیات سے کٹ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور واسطہ اختیار کر کے اس کے گھر میں یکسو ہو کر تنہا بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اسی جانب ہی مبذول رہتی ہے کہ میرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے‘ چنانچہ وہ اس گوشہ خلوت میں تنہا بیٹھ کر توبہ استغفار کرنے‘ نوافل پڑھنے‘ ذکر و تلاوت اور دعا و التجا کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے گویا اعتکاف بیٹھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے تو پھر لیلة القدر کو تلاش کرنے اور عبادت کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔نبی کریم ﷺ نے لیلة القدر کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایک رات ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے۔ اس رات کو ایک مومن مسلمان اس کی خیر و برکت سے فیض یاب ہونے کے لئے پانچوں طاق راتوں کو اپنے رب کی مکمل یکسوئی کے ساتھ خوب عبادت کرے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ رمضان میں ایک رات افضل و برتر ہے‘ جو شخص اس کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہ گیا وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہو گیا (روایت حضرت انس بن مالک)رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ لیلة القدر کی سعادت اور خیر و برکت سے صرف بدنصیب ہی محروم کیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ) بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ پورے رمضان (اور بالخصوص آخری عشرہ میں) بہت کثرت سے ذکر و اذکار کرنے کے علاوہ تلاوت قرآن کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کا ہمیشہ معمول تھا کہ وہ بہت بھلائی اور سخاوت کرتے مگر رمضان المبارک میں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تو آپ اور بھی زیادہ سخی ہو جاتے‘ رمضان شریف جبرائیل علیہ السلام ہر رات کو آپ سے ملاقات کی غرض سے تشریف لاتے۔ آپ رمضان کے اختتام تک روزانہ جبرائیل علیہ السلام کو قرآن پاک پڑھ کر سناتے تھے‘ اور آپ کی سخاوت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔رمضان المبارک میں کثرت کے ساتھ قرآن حکیم پڑھنے کا خصوصی اہتمام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس مقدس کتاب کا نزول اسی ماہ مبارک میں ہی ہوا ہے۔ سورة القدر میں کہا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو لیلة القدر میں نازل کیا ہے اور سورة بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ موودی نے اپنی مقبول عام تفسیر تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں نبی کریم ﷺ کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہ رمضان ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو یہاں لیلة القدر کہا گیا ہے اور سورة دخان میں اسی رات کو ہی مبارک رات فرمایا گیا ہے۔
ترجمہ: ”ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے“ (آیت نمبر 3)
ماہ رمضان درحقیقت ”لوٹ سیل“ کا مہینہ ہے۔ رب کریم اپنے پیارے نبی کی امت پر کسی نہ کسی بہانے اپنی رحمت کے خزانے لٹانے پر تیار ہوتا ہے۔ اس کی رحمت بے بہا کو سمیٹنے میں کوتاہی و سستی بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ اس موقع پر صلوة التسبیح کا اہتمام بھی کر لے تو گویا اس نے بہت کچھ کما لیا ہے۔ آنحضور ﷺ نے حضرت عباد بن عبدالمطلب کو فرمایا ”اے میرے چچا عباسؓ! کیا میں تجھ کو نہ دوں‘ کیا میں تجھ کو نہ دوں؟ کیا میں تجھ کو خبر نہ دوں؟ (رغبت کے لئے تکرار فرما رہے ہیں) فرمایا اے چچا! نماز تسبیح پڑھا کر‘ ہر روز‘ اگر روزانہ نہ پڑھ سکے تو ہفتہ میں ایک بار یا مہینہ میں ایک بار یا پھر ایک سال میں ایک دفعہ اور اگر سال میں ایک بار بھی نہ پڑھ سکے تو زندگی میں ایک دفعہ پڑھ لے۔ حضور اقدس نے صلوة التسبیح پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ پہلی رکعت میں حسب دستور سورة فاتحہ کے بعد کوئی سورة پڑھ لو پھر 15 بار ”سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر“ پڑھ کر رکوع میں چلے جا¶‘ کھڑا ہونے سے پہلے دس بار‘ پھر کھڑے ہو کر قومہ میں دس بار‘ پھر سجدے میں سر اٹھانے سے پہلے دس بار‘ دو سجدوں کے درمیان یعنی دوبارہ سجدے میں جانے سے پہلے (جلسے میں) دس بار۔ پھر دوسرے سجدے میں دس بار‘ پھر سجدہ سے سر ٹھا کر کھڑا ہونے سے پہلے‘ استراحت میں دس بار ان کلموں کو پڑھو۔ اسی طریقے سے اب تک 75 بار ان کلموں کی تعداد پوری ہو جائے گی۔ بالکل اسی طریقے سے چار رکعت مکمل کریں تو پوری نماز میں یہ 300 دفعہ پڑھے جا چکیں گے۔ یہ خیال رہے کہ تمام ارکان میں یہ تسبیحات اختتام کے قریب پڑھی جائیں گی۔ شافعی محشر ﷺ نے اس نماز تسبیح کو تمام گناہوں کا تریاق بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس نماز کے ذریعے انسان کو خدا کا بہت قرب حاصل ہوتا ہے۔ (درجات بلند ہوتے ہیں‘ دکھ‘ درد‘ سختی‘ تنگی و پریشانی کا بھی مداوا ہوتا ہے۔ پچھلے اور اگلے پرانے اور نئے بھول کر کئے ہوئے یا جان بوجھ کر چھوٹے اور بڑے‘ ظاہری اور پوشیدہ تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں (ابو دا¶د‘ ابن ماجہ)

مزیدخبریں