میرا یہ کالم جب دفتر پہنچ جائے گا تو اس کے چند گھنٹوں کے بعد نواز شریف صاحب سپریم کورٹ کی معانت کے لئے بنائی 6ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو اپنی دولت اور اثاثوں کا حساب دے رہے ہوں گے۔
میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ التجا کرتا ہوں کہ اگرنواز شریف نے واقعتا اپنے اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت یا کک بیکس وغیرہ کے ذریعے دولت اکٹھی کی۔ اسے جرائم پیشہ لوگوں کی طرح غیر ملک منتقل کیا اور اس دولت سے لندن کے ایک پوش علاقے میں فلیٹ خریدے اور ان کی ملکیت ہم سے چھپائے رکھی تو ربّ کریم سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ان کے جرائم کا پتہ چلانے میں ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرے۔شریف خاندان بے نقاب ہو اور اس کے مبینہ جرائم کے ثبوت مہیا ہوجانے کے بعد اسے کماحقہ سزاﺅں کا بندوبست بھی ہو۔
ایک بات اگرچہ ہمیں جان لینا چاہیے اور وہ یہ کہ شریف خاندان کو اس کے مبینہ گناہوں کی سزا تو ضرور مل سکتی ہے مگر ان کی جمع کی ہوئی دولت ”حرام کی کمائی“ ثابت ہوجانے کے بعد بھی ”قومی خزانے“ میں واپس نہیں آئے گی۔ افتخار چودھری کی سپریم کورٹ نے آصف علی زرداری کے سوئس بینکوں میں مبینہ طور پر چھپائے 60کروڑ ڈالروں کو بھی قومی خزانے میں واپس لانے کے لئے بہت لگن سے کام کیا تھا۔ ٹی وی سکرینوں پر اس کی وجہ سے بہت رونق بھی لگی رہی تھی۔
آصف علی زرداری کی سوئس بینکوں میں چھپائی رقوم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے لئے مگر ضروری تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت سے سرکاری طور پر تعاون کی درخواست کرتے۔ گیلانی صاحب نے وہ چٹھی لکھنے سے انکار کر دیا۔ توہینِ عدالت کے مرتکب ٹھہرئے۔ اس جرم میں انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پانچ سالوں کے لئے قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نااہل بھی ہو گئے۔ انصاف کا بول بالا ہو گیا۔ سپریم کورٹ کی بلّے بلّے بھی ہو گئی۔
آصف علی زرداری کی مبینہ طورپر چھپائی دولت کا مگر ابھی تک سراغ نہیں مل پایا ہے۔ اس کا قومی خزانے میں واپس آنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ربّ کریم سے میری فریاد ہے کہ شریف خاندان پر لگائے الزامات اگر ثابت ہوجائیں تو نہ صرف نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوں بلکہ ان کی جانب سے اب تک چھپائی رقوم بھی قومی خزانے میں واپس آئیں۔
”تاریخ“ تو اسی صورت بنے گی۔ گیلانی کے بعد ایک اور وزیر اعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیشی ہرگز ”تاریخ“ نہیں بنائے گی۔ اس ضمن میں ”دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے“۔
”تاریخ“ ایک حوالے سے اگرچہ اس لئے بن رہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا 1977ءمیں تختہ الٹ کر ان کے خلاف احمد رضا قصوری کے والد کو FSFکے ہاتھوں قتل کروانے کا جو مقدمہ بنایا گیا تھا اسے براہِ راست ہائی کورٹ نے سناتھا۔ اصولی طورپر تفتیش مکمل ہوجانے کے بعد کسی مبینہ ”قاتل“ کو سیشن کورٹ میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ وہاں بہت ساری پیشیوں اور طویل سوالات وجوابات کے بعد جو فیصلہ آتا ہے ہائی کورٹ سے صرف اس کے خلاف رجوع کیا جاتا ہے۔ ”فوری انصاف“ کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو کو مگر سیشن کورٹ کے ذریعہ سزا دلوانے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ہائی کورٹ Trial Court بن گئی۔ اس Trial کے دوران جسٹس مشتاق نے بھٹو کو ہر طرح کی ذلت و اذیت سے دوچار کیا۔
یوسف رضا گیلانی کے کیس میں سپریم کورٹ براہِ راست فریق بن گئی۔ سوال بہت سادہ تھا۔ ”چٹھی لکھو گے یا نہیں؟“۔ گیلانی نے انکار کیا اور توہینِ عدالت کے مجرم قرار پائے۔ نواز شریف کے حوالے ”تاریخ“ یوں بن رہی ہے کہ موصوف پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے باوجود کھلی عدالت میں نہیں گریڈ 18سے 20پر مشتمل ریاستی افسروں کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ بند کمرے میں ان کی جو ممکنہ ذلت و رسوائی ہوئی ہو گی اسے یہ قوم اس طرح نہیں دیکھ پائی جیسا بھٹو کے حوالے سے جسٹس مشتاق کی لگائی کھلی عدالت کی بدولت ممکن ہوا تھا۔
یہ بات بھی طے ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ہوئے سوال و جواب کے سیشن کیمروں کے ذریعے ریکارڈ بھی ہوئے ہوں گے۔ Whatsapp گروپس کے اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سیشن کے چند حصے لیک نہ ہوں۔ وہ لیک ہوگئے تو ہاہا کار چند دنوں تک ضرور مچے گی۔ JIT یہ لیک کرنے والے کا سراغ بھی لگالے گی۔ ”صاف شفاف“ نظام سزا اور جزا کے اس دور میں البتہ ہم بدنصیبوں کو یہ علم کبھی نہیں ہوگا کہ ممکنہ لیک کا ذمہ دار کون شخص تھا۔ ممکنہ لیک ہوگئی۔ اس کے بارے میںشوروغوغا برپا ہوا تو لیک کرنے والے شخص کی شاید خاموشی سے نشان دہی ضرور ہوجائے گی۔ ممکنہ لیک کے ذمہ دار شخص کو اسکے محکمے میں واپس بھیج دیا جائے گا جہاں اس کے خلاف ہمیں ”انضباطی کارروائی“ کی تسلی بھی دی جائے گی۔
نواز شریف کے لئے میری ناقص رائے میں اس لئے ضروری تھا کہ ممکنہ تذلیل سے بچنے کے لئے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے۔ انہوں نے وزیراعظم کے منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی JITکے سامنے خلقِ خدا سے چھپائے سوالات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جو ”تاریخ“ بنائی ہے وہ بالآخر ”نظیر“ بنے گی۔ یہ بات لکھ لیجئے کہ ان کے بعد آنے والا وزیراعظم اکثر پاکستان کے تھانوں میں عام SHOs کے ذریعے تفتیش کے لئے بلایا جائے گا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیاکہ میں نے تو نواز شریف کی پیشی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ لکھنے کا خود سے وعدہ کیا تھا۔ JITنے سپریم کورٹ کے روبرو یہ شکایت لگائی ہے کہ مجھ ایسے بدبخت، دو ٹکے کے صحافی اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اس کے کام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ JITچونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی ہے لہذا س کے کام میں رکاوٹ ڈالنا سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ کل تک مجھے خبر تھی کہ میرے گناہوں کے ثبوت کے لئے صرف میرے ٹی وی پروگرام کی چند جھلکیاں عدالت کو پیش کی گئی ہیں۔ اب پتہ یہ چلا ہے کہ یہ کالم بھی اس گناہ میں حصہ ڈالنے کا برابر کا مجرم سمجھا گیا ہے۔
میرے ایک کالم کا عنوان تھا:”انصاف ہوکر رہے گا“۔ بخدا میں نے اسے دس سے زیادہ بار پڑھا۔ صحافت شروع کی تو انتہائی سخت گیر مگر مشفق سینئرز سے سیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کی شفقت سے یہ بات میری جبلت میں شامل ہوچکی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے وقار کو تھوڑی سی گزندلگانے والا فقرہ بھی نوکِ قلم پر نہ آئے۔ یہ کالم مگر ”ان“ کو بہت ناگوار لگا ہے۔ غالب کی فریاد رہی کہ فرشتوں کے لکھے پر اسے ناحق سزائیں ملتی ہیں۔ مجھے ابھی تک سزا تو نہیں ملی مگر تابکہ؟ انگریزی والا Markتو ہوگیا ہوں۔ حیرانی وپریشانی میں صرف یہی استفسار کرسکتا ہوں کہ ”آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟“
بہتر یہی ہے کہ قلم روک کر ریموٹ اٹھاﺅں اور وزیر اعظم کی پیشی والی ”تاریخ“ کو بنتا دیکھوں۔
٭٭٭٭٭