کوئٹہ (بیورو رپورٹ+نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) بلوچستان اسمبلی میں 3 کھرب 50 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔ صوبائی مشیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے بجٹ تقریر میں کہا کہ صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 86 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان امن اور ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ مخلوط حکومت نے قلیل عرصے میں صوبے کو صحیح سمت میں گامزن کیا۔ بلوچستان میں آئندہ مالی سال میںایمبولینس سروس شروع کی جائے گی۔ آنے والے دنوں میں گوادر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ حکومت کی مو¿ثر حکمت عملی سے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ آئندہ بجٹ میں امن و امان کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں 30 ارب سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ امن و امان کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 14 فیصد زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ شعبہ صحت کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ کی مد میں 17 ارب روپے لگایا ہے۔ وفاق سے قابل تقسیم پول سے حاصل آمدنی کا تخمینہ 202 ارب سے زائد ہونے کا امکان ہے۔ وفاق کی طرز پر ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ کارکنوں کی کم سے کم تنخواہ 14 ہزار سے بڑھا کر15 ہزار کرنے کی تجویز ہے۔ رواں سال دہشت گردی کے متاثرین میں ایک ارب روپے کی تقسیم کی گئی۔ سرکاری شعبے میں لگژری گاڑیوں کی خریداری مکمل پابندی ہوگی۔ بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ 6 ارب سے بڑھا کر 8 ارب کر دیا گیا۔ براہ راست منتقلی سے 17 ارب سے زائد وصول ہوئی ہے۔ تعلیم‘ صحت‘ امن و امان‘ آب نوشی کے شعبوں کو ترجیح ہوگی۔ مواصلات‘ پانی و توانائی شعبوں کو بھی ترجیح ہوگی۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ 52 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ حکومت بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے سادگی اور بچت پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال میں ٹیکس اصلاحات کیں۔ حکومت نے مالی معاملات میں بہتری کیلئے کئی اقدامات کئے۔ تمام محکموں کو مالی نظم و نسق کیلئے خصوصی ہدایات جاری کیں۔ محکمہ خزانہ محکموں کے اخراجات پر کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت نظر رکھے ہوئے ہے۔ مالی نظم و نسق کیلئے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں 7 ہزار 971 نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ آئندہ مالی سال میں ایک ہزار سے زائد سکولوں کو ٹرانسپورٹ دینے کی تجویز ہے۔ بلوچستان کے 14 ہزار طلباءو طالبات کو ملکی و غیرملکی اداروں میں وظائف دیئے جائیں گے۔ شعبہ ماہی گیری کیلئے 800 ملین روپے سے زائد مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ شعبہ لائیو سٹاک کیلئے 2 ارب 81 ملین روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ شعبہ زراعت کیلئے 8 ارب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ بلوچستان میں آبپاشی سے متعلق پانی کی کمی اہم مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے تعاون سے آبپاشی کے 10 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ آبنوشی کے شعبے کیلئے 19 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ واٹر سپلائی سکیموں کو سولر سسٹم پر منتقل کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ بےروزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی بڑا چیلنج ہے۔ بلوچستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ لوکل باڈیز کو فنڈز کی فراہمی آئندہ مالی سال بھی جاری رکھی جائے گی۔ رواں مالی سال محکمہ بلدیاتی کو لوکل باڈیز کیلئے تقریباً 11 ارب روپے دئیے گئے۔ چیئرمین وائس چیئرمین کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010کے تحت اعزازیہ دیا جائے گا۔ سرکاری عمارتوں کو بتدریج شمسی توانائی پر لایا جائے گا۔بلوچستان کے بجٹ میں آئندہ مالی سال میں جاری اور نئے وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی تجویز ہے۔ جاری وفاقی منصوبوں میں منگی ڈیم کے منصوبے پر عملدرآمد شامل ہے۔ منگی ڈیم کی تعمیر پر لاگت کا کل تخمینہ 9 ہزار 334 ملین روپے سے زائد ہے دو ہزار 9 سو ملین سے زائد کی لاگت کا گوادر سیف سٹی منصوبہ بھی وفاقی منصوبوں میں شامل ہے۔ پشکان منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ ایک ہزار 600 ملین روپے سے زائد لگایا گیا ہے اور ماڑہ میں سبول ڈیم کا منصوبہ بھی وفاقی منصوبوں میں شامل ہے۔سبول ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ 9ہزار 636 ملین روپے لگایا گیا ہے۔ قلعہ سیف اللہ میں سٹوریج ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھی وفاقی جاری منصوبوں میں شامل ہے۔ ڈیم کی تعمیر کا کل تخمینہ چار ہزار 300 ملین روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔ لورالائی میں ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ نو سو ملین روپے ہے۔ باچا خان چوک، سرپل ایکسپریس وے پر لاگت کا تخمینہ 14 ہزار ملین ہے۔نئے منصوبوں میں 4 ہزار ملین روپے لاگت کا اسپیرورل روڈ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ حکومتی رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زہرے نے کہا ہے کہ بجٹ متوازن اور عوام دوست ہے کوئی رقم لےپس نہےں ہوا البتہ سرنڈر ہوئے جو اگلے مالی سال 2017-18مےں استعمال کرےگی جبکہ اپوزےشن رکن انجےنئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ حکومت کی نااہلی کے باعث عوام پر خرچ کی گئی رقم دوبارہ لےپس ہوا ،ےہ بات انہوں نے اسمبلی اجلاس سے قبل صحافےوں سے بات چےت کرتے ہوئے کےا، نصراللہ زےرے نے کہاکہ اپوزےشن نے رقم لےپس بارے مےں جو بےان دےا وہ من گھڑت ہے۔انجےنئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ اپوزےشن جماعتےں اپوزےشن لےڈر مولانا عبدالواسع کی قےادت مےں وزےراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی اور اپنے تحفظات سے آگاہ کردےا انہوں نے کہاکہ وزےراعلیٰ نے ہمےں ےقےن دہانی کرائی کہ موجودہ بجٹ مےں حکومتی ارکان سمےت اپوزےشن کو بھی مکمل حصہ دےنگے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ےہی رقم اس وقت جو ہمارے سب سے اہم مسئلہ پےنے کی پانی ،تعلےم اور صحت ہے اس پر خرچ کرنا تھا تو عوام بھی خوش اور رقم بھی ضائع نہ ہوتا لےکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اےک بار پھر ہمارے پےسے مرکز کے پاس جارہی ہے ۔ اگلے مالی سال 2017-18کی بجٹ اجلاس کی کاپی اےک بار پھر صحافےوں کو بروقت نہ ملنے پر صحافےوں نے اجلاس سے واک آوٹ کےا بعد مےں صوبائی وزراءمنا کر واپس لائے ، صوبائی وزراءنے صحافےوں کو ےقےن دہانی کرائی کہ کاپی نہ ملنے پر متعلقہ حکام کےخلاف کارروائی کرےنگے آپ بجٹ اجلاس مےں دوبارہ آکر کورےج کرےں جس پر صحافی دوبارہ جا کر بجٹ کی کورےج کی۔
بلوچستان بجٹ