گزرے زما نے کی بات ہے کہ ایک بستی میں ایک آدمی رہتاتھا۔ اُس کے چارے بیٹے تھے ۔ اُس کا کام کا ج تو کچھ تھا نہیں، سِوائے اِس کے کہ وہ دن بھر لنترانیاں کرتا رہتا اور شیخیاں مارتے پھرتا اور جیسے ہی اُسے موقع ملتا تووہ قریبی گاؤں، دیہاتوں اور شہروں میں جاکرچوری ڈکیتی اور لو ٹ مار کرتاوہ اِس طرح اپنے گھر کاخرچ چلاتااوراپنے لاڈلے بیٹوں کی ہر خواہش پوری کرتا رہتا۔ اِن سے جو بچ جاتا اُسے آگے کے لئے محفوظ کرتا؛ کچھ عجیب اتفاق ہوتا کہ جیسے ہی اِس کے پاس کچھ کثیر رقم جمع ہوجاتی تو چارچھ ماہ بعد پولیس اُسے پکڑ کرلے جاتی اِس طرح جو رقم جمع بھی ہوتی تھی ۔ تووہ بھی تھانہ کچہریوں اور ضمانتوں میں خرچ ہوجاتی تھی ۔ بڑے عرصے تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا رہا۔ آخر کار ایک روز یہ ایسا بیمار پڑا کہ بستر سے جا لگا ۔ بہت علاج کرایا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ غرضیکہ ، قریب تھا کہ موت آجا ئے۔ ایک دن اِس نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ ’’ جب تک مجھ میں ہمت تھی۔ میں چوری چکاری ، ڈکیتی اور لوٹ مارکرکے گھر کا خرچ اور تم سب کی مہنگی سے مہنگی ہر خواہش پوری کرتارہا؛ اِس سے جو بچتاتو اُسے اپنے بڑھاپے اور تمہارے مستقبل کو بہتر بنا نے کے لئے جمع کرتا مگر کچھ دِنوں بعد مجھے پولیس گرفتار کرکے لے جاتی جتنی بچت ہوتی وہ ساری میری رہا ئی اور تھانہ کچہری اور ضمانتوں میں ہی خرچ ہوجاتی تھی۔ اِس طرح میری بچت نہیں ہوسکی ۔
اُس نے ایک لمبی آہ بھر ی اور بولا ..!!مگر اَب چونکہ قریب ہے کہ میری موت آجا ئے اور میں مر جاؤں، تم لوگ بھی ابھی کچھ کرتے کراتے تو ہو نہیں ، ایسا نہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد گھر کے خرچ کا سلسلہ اور تمہاری خواہشات کا ذریعہ ختم ہوجا ئے۔ تو تم اِس کا الزام مجھے مت دینا۔ بلکہ میرے مرنے کے بعد گھر کا خرچ چلانے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے تھانے، کچہری اور عدالتوں سے رجوع کرنا ۔ کیو ں کہ میری ساری بچت تو میری ضمانتوں کی صورت میںیہ لوگ لے جاتے تھے۔ اَب میرے بیٹو میں اِس کا ذمہ دار نہیں ہوں کہ آئندہ گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ اور تمہاری خواہشات کیسے پوری ہوںگی؟ میری قبر پر فاتحہ پڑھنے تو آنا۔ مگر شکوہ شکایت کے انبار اُٹھائے مت آنا؛ اِس لئے کہ اِس کا میں قصور وار نہیں ہوں گا۔ تمہارے آئندہ کے ذمہ دار تھانے والے اور وہ عدالتیں ہیں جنہوں نے میری خوشحالی کے دِنوں کی بچت منی کو میری رہائی کے لئے ضمانتوں پرمجھ سے خرچ کرایا ‘‘۔ بالکل ایسا ہی اعلان آج مُلک میں بڑھتے توانا ئی بحران اور بڑھتی اوربے لگام ہوتی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے نوازشریف اور شہباز شریف بھی اپنی پارٹی نون لیگ کی حکومتی مدت کے اختتام پرکرگئے ہیں اور اپنی گردنیں تان کر اور سینے چوڑے کرکے کہہ گئے ہیں کہ’’ ہم 31مئی 2018ء تک مُلک کو 10ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کی پیداوار چھوڑ کرگئے ہیں۔ ہماری حکومت میں مُلک بھر میں لوڈشیڈنگ صفر ہوگئی تھی ۔ اَب بجلی کی بڑھتی لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار نگران حکومت ہو گی ۔
جن کا کہناتھاکہ عوام ہمیں بڑھتی لوڈشیڈنگ اور بڑھتے ہوئے بجلی بحران کا ذمہ دار ہرگز نہ ٹھہرائے۔ اَب اِس حوالے سے جو کچھ پوچھنا ہے؟ اور جتنے بھی سوال کرنے ہیں۔ نگران حکومت سے کئے جا ئیں۔ اَب بجلی کی بے لگام ہوتی لوڈشیڈنگ اورمُلک میں پانی سمیت دیگر پیدا ہونے والے مسائل کا نگران حکومت ہی جواب دہ ہو گی۔ ذراسوچیں، کہ نوازشریف ، شہباز شریف اور سمیت نون لیگ والے اپنے تمام سیاہ کرتوتوں کا کتنی آسا نی سے ذمہ دارنگران حکومت کو ٹھیرا رہے ہیں۔ حالانکہ نگران حکومت کو آئے ابھی چند ہی دِن ہوئے ہیں۔ ابھی تو یہ ٹھیک طرح سے تشکیل بھی نہیں ہوپائی ہے۔ مگریہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سا بق وزیراعظم اپنے گناہوں کا ذمہ دار نگران حکومت کوٹھہرارہے ہیں۔ مُلک میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ و توانا ئی گیس اور پانی سمیت تمام بحرانوں اور مشکلات اور پریشا نیوں کے ذمہ دار نوازشریف، شہبا زشریف اور شاہد خاقان عباسی اور نون لیگ والے ہیں۔ آج جنہوں نے اپنی تمام تر ناکا میوں اور اپنی نااہلی اور اپنے سارے سیاہ کرتوتوں کو عوام الناس کے سا منے تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹاسارا ملبہ نگراں حکومت پرڈال دیا ہے۔ سُو آج نون لیگ کی حکومت بھی اپنے سر کا بوجھ نگران حکومت کے کاندھے پر رکھ کر یہ سوچ رہی ہے کہ اِس طرح اِس کی بچت ہوجائے گی اور اِس کی جان چھوٹ جا ئے گی اور یہ ٹوپی ڈرامہ کرکے دوبارہ اقتدار میں آجا ئے گی ۔ تو اَب یہ اِس کی بھول ہوگی۔