کشن گنگا کی تکمیل اور ہماری نااہلیت

مئی 2018ء میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستانی سرحد کے نزدیک کشن گنگا منصوبہ کا افتتاح کیا جو کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس المیہ کے فوراً بعد پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی کی قیادت میں چار رکنی وفد نے عالمی بنک سے ملاقات کی اور اپنے خدشات اور اعتراضات بیان کئے۔ جسے بنک نے ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ہماری وفد بھیجنے کی جوابی حکمت عملی ناکام رہی۔ بہتر ہوتا حکومتی اہلکار کشن گنگا کے بارے عالمی ثالثی عدالت 202صفحات پر مبنی PAZTICL AWAZD مورخہ 18 فروری 2013ء اور 44 صفحات کا FINAL AWAZD مورخہ 20 دسمبر 2013ء کا بغور مطالعہ کر لیتے تو یہ شرمندگی اور بھارتی موقف کی تائید نہ ہوتی۔ سفارتی محاذ پر یہ پاکستان کی ایک بڑی شکست ہے۔اسی ترنگ میں بھارت ہمارے مغربی دریائوں یعنی دریائے سندھ پر متنازعہ منصوبے ’’نیموبازگو‘‘ اور ’’چٹک‘‘ کے علاوہ 14 چھوٹے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے چناب پر سلال اور بگلہار سمیت 11 منصوبے مکمل ہیں۔ دریائے جہلم پر کشن گنگا مکمل کرنے کے علاوہ وولر بیراج اور ریٹر ڈیم سمیت 50 منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
پانی کے وسائل کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت ہولناک نظر آ رہا ہے اور دو سال قبل دی گئی دھمکی کے عزائم پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ (خدانخواستہ) یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن صدافسوس کسی کو اس سے کوئی تشویش یا غرض نہیں ہے۔مندرجہ بالا واقعات سے کیا ہم یہ اخذ کریں کہ سب کچھ ہمارا بیرونی دشمن کر رہا ہے؟ شاید ایسا نہ ہے‘ ہمیں اندرونی خطرات کو بھی بھانپنا ہو گا۔ عالمی ثالثی عدالت میں ہمارے وفد کی قیادت کے لئے کمال مجید اللہ کا نام بطور AGENT تجویز کیا گیا جو کہ اس اہم اور حساس ترین پوزیشن کے قطعی طور پر موزوں نہ تھا۔ کمشنر انڈس واٹر کو غیر اہم رکھا گیا اور ذاتی سیاست کو ترجیح دی گئی۔ دراصل یہ سہولت کاری بھارتی مفاد کے لئے اہم کڑی ثابت ہوئی۔ اسکی تفصیلی رپورٹ اخبار THE NEWS مورخہ 14 جنوری 2011ء میں ایک چشم کشا سرخی کے ساتھ شامل ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اداروں کی خاموشی ناقابل معافی غفلت ہے۔ اسی طرح اخبار نوائے وقت مورخہ 16 جنوری 2011ء کی سرخی کے مطابق ’’پاکستان نے عالمی عدالت میں حکم امتناعی کی درخواست نہ دے کر بھارت کو کشن گنگا ڈیم بنانے کا موقع دے دیا۔ جس پر بھارت کو حیرت ہوئی‘‘ اس حقیقت کا اندازہ مشکل نہ ہے کہ منصوبہ کے آغاز ہی سے ہمارے قومی مفاد کے مخالف عناصر نے بھارت کو اس کی کامیابی پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی تھی۔
اس وقت حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور مسلم لیگ (ن) ایک مضبوط اپوزیشن متصور ہوتی تھی لیکن اس بھیانک واردات پر ان کا کوئی بیان موجود نہ ہے۔ ثالثی عدالت نے اپنا جزوی فیصلہ فروری 2013ء میں دیا اور جون 2013ء کو نواز شریف وزیراعظم بنے۔ چھ ماہ بعد عدالت نے اپنا فائنل فیصلہ بھارت کے حق میں سنا دیا اور یہ بھی لکھا گیا کہ پاکستان نے پانی کے موجودہ اور متوقع زرعی استعمال کے حوالہ سے مکمل اعداد و شمار نہیں دیئے۔ کوئی ہوش مند ملک ہوتا تو اس غفلت پر حکومت اور حکومتی اداروں کا حشر نشر ہو جاتا لیکن بے حس معاشرہ میں حکومت نے کمال ڈھٹائی سے دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ تو ہماری کامیابی ہے۔جب پاکستان پانی کے اس اہم مسئلہ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا نواز شریف مودی کی ناز برداریاں نبھاتے رہے اور سجن جندال کی میزبانی فرماتے رہے اور شان بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ اپنا کوئی کل وقتی وزیر خارجہ بھی نہ تھا نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے قوم کے اخراجات پر بیرون ملک بے شمار دورے کئے لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کے لئے ان کے پاس کوئی ترجیح نہ تھی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ کشن گنگا کی وجہ سے نیلم جہلم کی پیدواری صلاحیت کم ہوگی علاوہ ازیں فصلوں کی پیداوار کو نقصان ہوگا۔اور ہمارا ایکوسسٹم بھی تباہ ہو جائے گا۔دریائے نیلم کے رخ کی تبدیلی سے لاکھوں کی آبادی کا پانی سے محروم ہونے کا ہم نے ادراک نہیں کیا۔ انڈس واٹرٹریٹی پر اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر عالمی سطح پر اپنا موقف پیش نہیں کر سکے۔ وگرنہ سفارتی محاذ پر ایسا طوفان کھڑا کیاجاتا۔کہ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کو بھی نوٹس لینا پڑتا۔لیکن بدقسمتی سے نہ حکومت بول رہی ہے۔ نہ اپوزیشن شاید کسی کو آنے والے وقت کی سنگینی کا احساس تک نہ نہیں اور اسی لیے یہ اہم ترین مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں بھی شامل نہ ہے۔ اپنی نسلوں کی خااطر ہمیں اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔ قومی سطح پر مندرجہ ذیل نکات کو ترجیح دی جائے ۔
1: اہم ترین قدم اپنے اداروں کو فعال اور مضبوط کرنا ہوگا۔ تاکہ بے حسی کی سوچ کا انداز تبدیل ہو۔ اس کے لئے کمشنر انڈس واٹر کا کردار سب سے اہم ہے۔ بہتر ہو گا کہ کمشنر کی تعیناتی عرصہ تین سال کے لئے ہو۔ ارسا میں یہ سسٹم زیادہ کامیاب نظر آتا ہے۔ وفاقی منسٹری آف واٹراینڈ پاور اور صوبائی محکمہ اریگشن خاموش تماشائی نہ ہوں۔
2: دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح آبی وسائل کی حفاظت کے لئے ’’تھنک ٹینک‘‘ یا ’’نیشنل واٹر کونسل‘‘ تشکیل دی جائے ۔اصل مقصد اہم مسائل کا تجربہ اور اس کے لئے سفارشات مرتب کرنا ہوگا۔اس کے ممبر صاحبان جزو وقتی تعینات کیے جائیں جن کا اس فیلڈ میں اہم کردار رہا ہو۔ اس ادارہ کو منسٹری آف واٹر اینڈ پاور کے ساتھ منسلک کیا جاسکتاہے۔
3: بھارتی آبی جارحیت کے پیش نظر ، یہ حساس ترین مسئلہ میڈیا خاص کر Electronicپر برائے بحث پیش ہوتا رہنا چاہیے۔ جس میں ٹیکنوکریٹس کے علاوہ سیاستدان اور عام شہری بھی شامل ہوں۔کشن گنگا کی تکمیل جیسے واقعات یا اپنے منصوبہ جات، موسمی تبدیلی اور محتاط طریقہ سے پانی کا استعمال وغیرہ پر تمام لوگوں کو روشناس کرانا ضروری ہے۔ ہر اہم فورم پر سیمینار منعقد کئے جائیں تاکہ رائے عامہ کا مناسب انداز سے اظہار ہو سکے ۔PRINTمیڈیا پر ایسے کالم زیادہ لکھے جائیں۔
4: پانی کے حقوق کے لئے جنگ ، محض انجینئرنگ مسئلہ نہ سمجھا جائے ۔ انڈس واٹر ٹریٹی 1960کو انٹرنیشنل واٹر لاز کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ یونیورسٹی اور لاء کالج کے لئے مزید مضامین سلیبس کا حصہ بنایا جائے ۔ اس شعبہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے LUMSجیسے اداروں کو سامنے لانے کے لئے حکومت کی طرف سے مالی سہولت دی جا سکتی ہے۔ تاکہ عالمی عدالتوں میں ہم خود اپنے مسائل کا دفاع کر سکیں۔
5: ہمیں دریائے کابل کے پانی کے حصول کے لئے اپنی سوچ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ افغانستان کو پاکستان دشمنی کے لئے بھارت کی معاونت حاصل ہے اور دریائے کابل پر ڈیم بنانے جا رہے ہیں۔ دریائے کابل واٹر ٹریٹی پر کام شروع کرنا ہوگا۔ تاکہ اپنے حقوق کا انٹرنیشنل واٹر لاز کی روشنی میں دفاع ممکن ہو۔
6: بھارت کے مخالف عزائم کے پیش نظر ان کے منصوبوں پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے۔آج کل کی نئی سہولتوں سے مکمل شدہ اور زیر تعمیر منصوبوں کی مانیٹرنگ کی جائے ۔ تاکہ بروقت انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی پر عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر سکیں۔
7: تمام اداروں کو خلوص نیت سے یہ مشن پورا کرنا ہوگا۔اگرچہ بھارت ہم سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمارا ایٹمی نظام ان کے نظام سے بہت بہتر ہے۔اسی طرح اپنے پانی کے لئے ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن