جون کا مہینہ پاکستان کے مستقبل اور معیشت کے لیے نہایت اہم ہے ۔ رواں ماہ کی 26 تاریخ سے پیرس میں ہونے والیFATF کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے یا نہیں۔ خیال ہے کہ اگر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیا گیا تو پاکستان کے لئے اپنی ضرورت کے لیے قرض لینا اور عالمی منڈی میں تجارت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے بر عکس سابقہ حکومت اور کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اس سے ہماری معیشت پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور اسکی دلیل یہ دی جا تی ہے کہ پاکستان کا نام اس سے قبل2012-15 کے عرصہ کے دوران گرے لسٹ میں شامل رہا تھا اور پاکستان Surviveکر گیا تھا۔
یہ بات کرتے وقت وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ بار پاکستان کا نام اس لسٹ میں شامل ہو ا تھا تو امریکہ (اپنے مفادات کی بنا پر) پاکستان کے اتنا خلاف نہیں تھا جتنا اس بار ہے ۔ اس مشکل سے بچنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ پاکستان اپنی خود مختاری اور مفادات کو نظر انداز کر کے امریکہ کے کچھ مطالبات من و عن مان لے ۔ امریکہ بہادر چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے بارڈر کے ساتھ ہونے والی کارروائیوں میں امریکیوں کو شریک کرے ۔
اس کے علاوہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک ، حافظ سعید اور لشکر طیبہ کے خلاف کے خلاف کاروائی کرے اور ممبئی حملوں کے مبینہ مجرموں کو سزا دے۔ افغان بارڈر پر ہونے والی کارروائیوں کی بنا پر پاک فوج نے بڑی مشکل سے پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پایا ہے۔ اس سب میں امریکہ کو شریک کرنے کا مطلب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہو گا۔ رہے ممبئی حملے کے مجرم تو ان مبینہ مجرموں کے خلاف امریکہ یا بھارت کے پاس کیا ثبوت ہیں اس بارے میں یہ دونوں ممالک خاموش ہیں۔
خوش قسمتی سے سیاسی حکومت کے برعکس نگران سیٹ اپ اس سلسلے میں زیادہ سنجیدہ اور متحرک نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو اس سلسلے میںNSC کی میٹنگ ہوئی جس میں نگران وزیر اعظم اور کابینہ کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں نگران فنانس منسٹر ڈاکٹر شمشاد اختر نے تفصیلی بریفنگ دی کہ پاکستان کو فرانس میں ہونے والے FATF کے جون کے اجلاس میں اپنا کیا ’’ ایکشن پلان‘‘ پیش کرنا چاہئیے تاکہ بلیک لسٹ میں شمولیت سے بچا جا سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھNACTA ( نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی) نے بھی ایف بی آر، سٹیٹ بنک اور ایف آئی اے کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں کافی کام کیا ہے۔ وگرنہ گزشتہ حکومت نے تو شاید یہ تسلیم کر لیا ہوا تھا کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونا ہی ہے اور اسے روکنے کو کوئی کوشش نہیں کرنی بلکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ نظر آ رہا تھا کہ جو ہونا ہے ہونے دو۔ بعد میں دیکھیں گے۔
ان کو شاید یہ ادراک نہیں تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف اس قسم کا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو بات یہیں تک نہیں رہے گی بلکہ امریکہ اور بھارت اپنی لابی کے ذریعے سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے پاکستان میں پیسے بھیجنا بھی مشکل بنائیں گے اور پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی کوشش کی جائے گی تو سب سے پہلے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ہونے کی وضاحت مانگی جائے گی۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ امریکہ اوربھارت یہ کوشش بھی کریں گے کہ بات یہیں تک نہ رہے بلکہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں بھی لگوائی جائیں۔ سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں مفتاح اسماعیل نے بھی یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کردیئے تھے کہ پاکستان کے خلاف یہ اقدام دراصل سیاسی ہیں۔ مان لیا لیکن اس سب کی وجوہات جو بھی ہوں ، اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے خلاف اس سازش کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ؟ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اس ملک کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ اسکے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور مستقبل میں اسکے اہداف پر مبنی ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ اپنے ان اہداف کے حصول کے لیے مختلف ممالک مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جن میں معیشت، تجارت، خطے کے مجموعی سیاسی حالات اور دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات شامل ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے حکمرانوں کے لیے سب سے غیر اہم رہی ہے۔ جون 2013 سے لے کر جولائی 2017 تک حکومت فل ٹائم نے وزیر خارجہ کی جگہ مشیرخارجہ سے کام چلایا۔ اسکے بعد نو ماہ کے لیے خواجہ آصف اور پھر چار مئی 2018 سے خرم دستگیر خان کو وزیر دفاع کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کا اضافی چارج دیا گیا ۔ ایک ملک جو عملی طور پر حالت جنگ میں ہے اور امریکہ ا ور بھارت جسے عالمی بساط پر تنہا کرنے کی کوشش میں ہیں، ایسے ملک کی وزارت خارجہ اگر بغیر وزیر اور ’’ اضافی چارج‘‘ پر چل رہی ہو گی تو وہ ملک عالمی طور پر تنہائی کا شکار نہیں ہوگا تو اور کیا ہو گا؟
کیا یہ ہمارے دفتر خارجہ کا کام نہیں ہے کہ اس بھارتی سازش کے جواب میں کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کروائے؟ ہماری ’’ کشمیر کمیٹی‘‘ نے گزشتہ پانچ برس میں کیا کیا ؟ شاید ہماری سیاسی حکومت اور دفتر خارجہ اس خوش فہمی کا شکار رہے ہیں کہ CPEC اور چین کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور ساتھی یا خارجہ پالیسی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ پیچیدہ عالمی بساط میں ہمارے ہر مسئلے کا حل چین نہیں ہو سکتا۔ اوریہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کا خسارہ گزشتہ چند برسوں سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق 2016-17 میں چین سے درآمدات 123 فیصد اضافے کے ساتھ تقریباًََ ساڑھے دس بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ پاکستان سے چین کو برآمدات کا حجم کم ہو کر تقریباًََ ڈیڑھ بلین امریکی ڈالر تک آ گیا ہے۔ اسی طرح آنے والے چند برسوں میں CPECکی ادائیگیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔ محتاط اندازے کے مطابق اگلے پانچ برس میں پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے تقریباًََ پانچ بلین امریکی ڈالر درکار ہونگے۔
FATF کی بلیک لسٹ میں شمولیت اور اقتصادی پابندیاں لگنے کی صورت میں اس سب کا انتظام پاکستان کے لیے بہت کٹھن ہوگا ، اور ’’ برادر اسلامی ملک‘‘ اور ’’ عظیم دوست ملک‘‘ کا الاپ ہمارے ہر مسئلے کے حل کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ ایک مستعد اور فعال دفتر خارجہ اور خارجہ پالیسی ہمارے لئے ناگزیر ہو چکی ہے۔ سفیر اور سفارت کار کے عہدے آج کے دور اور عالمی حالات میں ملکی سلامتی کے لیے اہم ترین حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اس عہدے کو صرف اپنے پسندیدہ بندوں کو نوازنے کے لیے استعمال کریں گے تو یہی کچھ ہو گا۔ اور ضرورت کے وقت کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔