ہمارا ایک دوست ہمیں عید ملنے آیا تو میز پر رکھے اخبار کی سرخیاں دیکھ کر اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔ کہنے لگا۔ سارے اخبار میں مجھے خیر کی ایک خبر بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے لیکن اخبارات کی خبروں اور لیڈرانِ شمال و جنوب کی زبانوں پر اس ملک کے حالات محبوب کی کمر یا مچھر دانی کی چھڑی سے زیادہ پتلے ہیں۔ ہمارے دوست نے کہا کہ ہم اپنے لائف اسٹائل (بڑے شہروں میں) کا جائزہ لیں تو ہم اپنے بڑے بڑے بنگلوں اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں ایسے رہ رہے ہیں جیسے ہم بھی کوئی چھوٹے موٹے اکبر بادشاہ یا جہانگیر بادشاہ ہیں۔آج کے دور میں ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے محکمے ہیں جو مغل بادشاہوں کے نصیب میں نہیں تھے۔ جب ہم وطن عزیز میں پی آئی اے کے محکمہ کا تصور کرتے ہیں اور اپنے ہوائی اڈوں سے پرندوں کی طرح پروازیں کرتے جہازوں کو دیکھتے ہیں تو شہنشاہ اکبر اور بادشاہ جہانگیر اور ان کی جیسے کئی اور مُغل بادشاہ یتیم مسکین وغیرہ ہی لگتے ہیں۔ ان مغل بادشاہوں کو سفر کرنے کے لیے ہاتھی ہی ہوا کرتے تھے۔ آج ہمارے حکمران جب اندرون ممالک یا بیرون ملک بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرتے ہیں تو مغل بادشاہوں پر ترس ہی آتا ہے کہ اتنے دولت مند ہونے کے باوجود بھی ہوائی جہاز جیسی نعمت سے محروم تھے۔ حکمران تو حکمران ہمارا ایک عام مزدور بھی جب مزدوری کرنے کے لئے دبئی شارجہ یا کسی اور ملک میں چاتا ہے تو اس کے سامنے مغل بادشاہوں کی شان و شوکت اور چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے۔ہمیں تو ماضی کے شہنشاہ اکبر و جہانگیر بادشاہ وغیرہ گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والی ان ماسیوں کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ ماسیاں موبائل فون اپنے کانوں سے چپکائے مختلف گھروں کو اپنے محدود وقت اور انتہائی مشکل شیڈول کے بارے میں خبردار کر رہی ہوتی ہیں اور بعض اوقات اتنی سنجیدہ اور غوروفکر کی باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ امورِ مملکت چلانے والے بھی شاید ایسی گہری باتیں نہ کرتے ہوں۔ ہم سوچتے ہیں کہ مغل بادشاہ آج کی ماسیوں جیسا بھی اسٹیٹس نہیں رکھتے تھے کہ موبائل فون پر عمالِ حکومت سے فوراً رابطہ ہی کر لیتے۔ وہ کتنے پس ماندہ تھے کہ کبوتروں یا گھڑ سواروں کے ذریعے پیغامات بھیجا کرتے تھے۔مغل بادشاہوں کے پاس منجم اور ماہر فلکیات تو ہوتے تھے لیکن شاید آج کی طرح محکمہ موسمیات نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے بھلے زمانے میں نئی سائیکل خریدی تو وہ صبح ریڈیو پر موسم کی خبریں سُن کر گھر سے سائیکل نکالتا تھا آج تو اخبارات میں موسم کے خشکانہ، ابر آلودانہ، بارشانہ اور عاشقانہ تیور بلا ناغہ شائع ہوتے ہیں۔ مغل بادشاہ بے چارے اتنے مجبور ہوتے تھے کہ ریڈیو یا ٹی وی کے ذریعے موسم کی پیشن گوئی سن کر مہاوتوں کو ہاتھی تیار کرنے کا حکم صادر نہیں فرما سکتے تھے۔ اچانک راستے میں بارش آ جانے سے ہاتھی کیچڑ میں پھیل کر بادشاہوں کو بھی گرا دیتے ہوں گے۔ مغل بادشاہ آج کے حکمرانوں کے سامنے اس لیے بھی مسکین لگتے ہیں کہ اس دور میں الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا اور حکمرانوں یا اپوزیشن لیڈروں کی باتوں کو کوٹھوں چڑھانے کے لیے اتنے زیادہ ٹی وی چینلز بھی نہیں ہوتے تھے۔ شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں وغیرہ کے پاس آج کی حکومت کی طرح وزارت اطلاعات و نشریات کہاں ہوتی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ شہنشاہ اکبر پورے ہندوستان کے سیاہ و سفید، سرخ و زاد، بنفشی و عنابی اور گلابی و چنبیلی کے مالک تھے لیکن ان کے ماتحت و معاون کوئی فواد چودھری صاحب یا فردوس عاشق اعوان صاحبہ نہیں تھیں۔ اس لئے بہادر شاہ ظفر بھی یہی غزل الاپتے اس دنیا سے پردہ فرما گئے تھے کہ لگتا نہیں ہے دل مرا اس اجڑے دیار میں اس کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں وغیرہ وغیرہ ملک کے طول و عرض بلکہ باہر کے ممالک کے طول و عرض میں بھی جتنا معزز اورمحترم مقام مذکورہ دونوں ہستیوں نے پایا ہے، وہ کسی اور کے نصیب میں کہاں؟ ن لیگ میں یہی مقام رانا ثناء اللہ صاحب نے پایا تھا ۔ یہ محترم شخصیات چنبیلی و گلاب جیسی کِھلی کِھلی گفتگوئیں کرتی ہیں تو ہماری پُثر مردہ طبیعتوںپر بہار آ جاتی ہے۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے فرمایا ہے کہ عدالت نے شہبازشریف کو دو ہفتے کا ریلیف دیا تھا، دو ماہ بعد آ گئے ہیں۔ انہوں نے لندن میں پُھرتیاں دکھائیں۔ راناثناء اللہ نے فرمایا ہے کہ فردوس باجی! شہبازشریف صاحب آ گئے ہیں۔ اب گو عمران گو، چُھپو چُھپو بنی گالا چُھپو تحریک چلے گی۔ عمران نے عوام کے منہ سے روٹی چھین لی ہے، باجی! اللہ سے ڈریں۔‘‘
مُغل بادشاہوں کی شان و شوکت اور دورِ حاضر
Jun 16, 2019