11 جون کو پی ٹی آئی حکومت نے اپنی حکومت کا پہلا مکمل بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ قبل ازیں اس نے دو ضمنی بجٹ پیش کیے لیکن اس نے اْس بجٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی جسے ڈاکٹر مفتاح اسمعیل نے گذشتہ سال مئی میں پیش کیا تھا۔ حسب توقع اسمبلی میں تقریر کے آخر میں اپوزیشن کیطرف سے شور و غوغا برپا کیا گیا اور بظاہر وزیر اعظم جو اس شائد اس موقع پر خطاب کرنا چاہتے تھے انہیں اس کا موقع نہ مل سکا۔ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت ضروری ہے اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس بجٹ کو اپوزیشن کی موجودگی میں منظور کرایا جائے۔ بصورت دیگر اگر حکومت اپنی اکثریت سے مطمئن ہے تو وہ یکطرفہ یہ کام کرسکتی ہے۔ لیکن اس سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور اس نازک معاشی صورتحال میں اپوزیشن کی مستقل تنقید جس میں تلخی کا پہلو بھی بڑھتا جائیگا عوام میں حکومت کی مقبولیت کو متاثر کرسکتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس بجٹ کا ایک جائزہ پیش کریں، یہ مفید ہوگا کہ ہم مختصراً ان مشکلات کا ذکر کردیں جو معیشت کو درپیش ہیں اور جن کا حل یا ان کو حل کرنے کا عمل اس بجٹ میں متوقع تھا۔ پاکستان نے بہت تاخیر سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس مدد حاصل کرنے جارہا ہے۔ اسٹاف لیول کی مفاہمت مئی کے شروع میں ہوگئی تھی اور سابق اقدامات ، (Sprior action) لینے کا عمل بھی شروع ہوگیا تھا، جو بورڈ کی منظوری کیلئے ضروری ہیں۔ شرح تبادلہ اور شرح مارک اپ میں اضافہ سابق اقدامات کے مطابق تھے۔ لیکن اہم ترین اقدامات بجٹ میں شامل ہونے تھے، لہذا یہ دیکھنا ہے کہ وہ اقدامات بجٹ میں آگئے ہیں یا نہیں۔ ان اقدامات میں اولین قدم بجٹ خسارے میں کمی ہے۔ مفاہمت میں یہ طے ہوا تھا کہ پرائمری خسارے ( deficit Primary ) کو قومی آمدنی کا اعشاریہ چھ فیصد تک کم کردیا جائیگا جس کا تخمینہ اس سال دو فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ آٹھ سو چالیس ارب روپیسے کم ہوکر صرف دو سو چونسٹھ ارب روپے تک کم کردیا جائیگا۔ پرائمری خسارہ ، مجموعی خسارے سے سود کی ادائیگیوں کو منہا کرکے نکلتا ہے۔ لہذا اگر پرائمری خسارہ صفر ہو تو آپ کی آمدنی سود کی ادائیگی کرسکتی ہے۔ اگر یہ منافع میں ہو تو نہ صرف سود کی ادائیگی ممکن ہے بلکہ اضافی رقم سے اصولاً قرضے کی واپسی بھی شروع ہوسکتی ہے۔ اگر یہ خسارے میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی آمدنی سود کی ادائیگی کیلئے ناکافی ہے بلکہ اس کے لیے بھی قرضہ لینا ہوگا۔ یہ کیفیت ہولناک ہوتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں قومی قرضہ ناقابل ادائیگی ہوجاتا ہے۔
اس خسارے میں کمی کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ جاری سال میں ٹیکسوں کی آمدنی میں بدف کے مقابلے میں ریکارڈ پانچ سو ارب روپے کی کمی واقع ہونا متوقع ہے۔ اس کی بڑی وجہ خود حکومت کی جانب سے دی گئی ٹیکسوں میں چھوٹ اور عدالت کیطرف سے ٹیکس وصولی کا رک جانا تھا۔ دوسری جانب اخراجات میں اضافے کیوجہ سود کی ادائیگی میں زبردست اضافہ ہے۔ شرح مارک اپ میں ابتک پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے
اس تناظر میں جب ہم بجٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو بظاہر اس میں ان مشکلات کو حل کرنے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ وہ تمام اہدا ف جن کا تعین آئی ایم ایف کیساتھ طے ہوا تھا وہ بجٹ میں موجود ہیں لہذا یہ توقع کیجاسکتی ہے کہ پروگرام کی بورڈ سے منظوری کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ بجٹ میں ٹیکسوں کا ہدف پانچ ہزار پانچ سو پچپن ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اس سال ٹیکس کی آمدنی کا اندازہ تین ہزار نو سو ارب روپے تک ہے گو کہ بجٹ میں نظر ثانی شدہ تخمینہ چار ہزار ایک سو پچاس ارب روپے رکھا گیا ہے جو ناممکن ہے۔ لہذا ٹیکس ہدف کا مطلب ہے کہ سولہ سو پچاس ارب روپے اضافی ٹیکس حاصل کیے جائیں۔یہ بظاہر ایک پہاڑ جیسا ہدف ہے لیکن ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس سال جو ٹیکس ضائع کیا گیا ہے وہ صرف معمولی پالیسی تبدیلی سے وصول ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سال میں جو معمول کی نمو ہوتی ہے وہ بھی اس ضائع شدہ ٹیکس کو شامل کرکے اس بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ان دونوں پہلوؤں کو جمع کرکے ٹیکس تقریباً پانچ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اضافی ٹیکسوں کی ضرورت پانچ سو پچاس ارب روپے کی رہ جاتی ہے جس کیلئے اقدامات بجٹ میں تجویز کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافی ٹیکس کا بجٹ ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان ٹیکسوں کے حصول کیلئے حکومت نے ایسے اقدامات سے احتراز کیا ہے جو بلا استثنی ہر ٹیکس گزار پر نافذ ہوجائے، مثلاً جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ یا پھر انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح میں اضافہ۔لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے ٹیکس لگائے گئے ہیں جن کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہونگے۔ مثلاً چینی پر اضافی ٹیکس لگایا گیا جس کی بھونڈی توجیہ یہ کہہ کر دی ہے کہ یہ مضر صحت ہے۔ بلا شبہ ان ٹیکسوں سے افراط زر بڑھے گا جو در حقیقت معیشت کو مستحکم کرنے کی قیمت ہے جو پوری قوم ادا کریگی۔
اخراجات میں کمی کی کوششیں بھی عیاں ہیں۔ سب سے اہم کٹوتی دفاع کے بجٹ میں نظر آرہی ہے جہاں افواج پاکستان نے اس مشکل صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں مانگا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حقیقی طور پر ان کا بجٹ کٹ گیا ہے کیونکہ افراط زر کے اثر سے اس کی حقیقی قدر کم ہوجائیگی۔ اس قدم سے کم از کم ایک سو دس ارب کی بچت ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں سول حکومت نے بھی اپنے اخراجات میں نہ صرف کوئی اضافہ نہیں لیا بلکہ تیس ارب روپے کی کٹوتی بھی کردی گئی ہے۔ دوسری جانب ترقیاتی بجٹ کو پانچ سو ارب روپے سے بڑھا کر سات سو ارب روپے کردیا گیا ہے۔ ماضی قریب میں وفاقی حکومت میں اس سے زیادہ ترقیاتی بجٹ رکھا جا چکا ہے کیونکہ اس سال اس میں بہت بڑی کٹوتی کی گئی تھی لہذا یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اس میں قابل قدر اضافہ کیا گیا ہے۔
ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ خسارے کی فنانسنگ کیلئے حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک سے قرضہ حاصل نہیں کریگی جس کا مطلب ہے کہ اس مقصد کیلئے نوٹ نہیں چھاپے جائینگے۔سب سے زیادہ زور غیر ملکی وسائل پر ہوگاجو صرف اس صورت ممکن ہوگا اگر آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے چلتا رہے۔ مقامی طور پر قرضے کمرشل بینکوں اور قومی بچت اسکیموں سے حاصل کیے جائیں گے۔ یہ ایک قابل قدر اصلاحی کوشش ہے ، لیکن اس کا حصول صرف سخت ڈسپلن سے ممکن ہے۔
فی الحال اس بجٹ کی حیثیت معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے مثبت ارادے کے اظہار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانا ایک جانفشانی اور دلجمعی کا تقاضہ کریگا۔ کیونکہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ ہے جو تین سالوں پر محیط ہے لہذا اس کو حاصل کرنے کیلئے ایک طویل اور صبر آزما عمل سے ہمیں گزرنا پڑیگا۔ ہمارے نظر میں اس عمل کو چار بڑے خطرات کا سامنا ہوگا۔ اول، ٹیکس تجاویز پر کچھ منفی ردعمل بھی سامنے آرہا ہے جو جلد ہی صنعتی ہڑتالوں اور تالہ بندی کیطرف جا سکتا ہے۔ یہ حکومت کا پہلا امتحان ہے کہ آیا وہ اس دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے بجٹ کی تجاویز پر قائم رہے۔ کوئی ایسا سمجھوتہ جو آئی ایم ایف کو دی گئی مفاہمت کے برخلاف ہوا تو اس سے پروگرام کی منظوری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔لہذ ا اس مرحلے کو بخیر و خوبی انجام تک پہنچانا از بس ضروری ہے۔ دوم، کیونکہ اس پروگرام پر عملدرآمد کا جائزہ ہر سہ ماہی میں ہونا ہے، اس لیے نتائج جلد ہی سامنے آنا شروع ہوجائینگے۔ اگر ہم نے بجٹ کے اہداف اور خصوصاً ٹیکس کا ہدف حاصل نہیں کر پائے تو یا ہمیں مساوی مقدار میں اخراجات کم کرنا ہونگے یا پھر ٹیکس کے اضافی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پروگرام معطل ہوسکتا ہے۔
سوم، پروگرام کے اندر پالیسی اقدامات کی ایک خاطر خواہ تعداد ہوتی ہے جن کیلئے ایک خاص وقت بھی دیا گیا ہوتا ہے۔ انرجی سیکٹر ، بینکنگ، کارپویٹ سیکٹر، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری وغیرہ پر مبنی یہ اصلاحی پالیسی اقدامات وقفے وقفے سے نافذ کرنا ہوتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر اس کو موخر کرنا یا اس پر عملدرآمد سے معذوری کا اظہار پروگرام کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماضی میں ہم نے اس مقام پر ٹھوکریں کھائی ہیں، کیونکہ ایک مدت کے بعد ہمارا عزم کمزور پڑ جاتا ہے خصوصاً یہ سوچ کر کہ ان مزید اقدامات کی سیاسی لاگت قابل قبول نہیں ہے۔ چہارم، اس پروگرام کے متعلق عوامی بدظنی اور بے اعتباری۔ حکومت کیطرف سے ابتک اس پروگرام پر حمائتی بیانات محدود رہے ہیں۔ سوائے مشیر خزانہ اور چند دیگر اہلکاروں کے ، حکومتی اکابرین نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ عوام، کاروبار اور صنعتی حلقوں سے مشاورت بھی واجبی سی رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس پروگرام کی ملکیت قبول کرے اور دیگر متعلقین کو اس کی افادیت اور ناگزیریت پر قائل کرے اور اس سے وابستہ معیشت کی بحالی کی امیدوں کا کھل کر اظہار کرے۔ اگر سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے تو اپوزیشن کے مخالف بیانیے کو تقویت و قبولیت ملے گی اور وہ سیاسی قوت جو حکومت کو اس پروگرام پر عمل کرنے کیلئے چاہیے وہ حاصل نہ ہوسکے گی اور پروگرام کے ختم ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے، جو ایک سانحہ سے کم نہیں ہوگا۔