اللہ کا واسطہ ہے قوم پر رحم کریں!!!!!

عامر ادریس نے عسکری نائین سے وزیراعظم عمران خان کی اس وقت کی ایک تقریر کا کلپ بھیجا ہے وہ وزیر اعظم نہیں تھے۔ قارئین جانتے ہیں کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ کیسی تقاریر کرتے تھے ان کے خیالات کیا تھے اور وہ غریب پاکستانی کے مسائل کو کیسے اجاگر کرتے تھے۔ اب ان کی عام آدمی کے دکھ میں ڈوبی وہ تقاریر ٹیلیویڑن چینلز پر دکھائی جاتی ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو برا لگتا ہے لیکن کچھ ہو نہیں سکتا کیونکہ الفاظ ادا ہونے کے بعد تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں، سیانے ایسے ہی نہیں کہتے کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلا لفظ واپس نہیں آ سکتا۔ اس لیے اب وہ سارے الفاظ، تقریریں بیانات گھوم پھر کر وزیراعظم عمران خان ان کے وزرائ، اور مشیروں کے ذہنوں پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو اس وجہ سے طوفان برپا رہتا ہے بہرحال حکومت کو یہ سب کچھ برداشت کرنا ہے ناصرف برداشت کرنا ہے بلکہ وعدے بھی پورے کرنے ہیں۔ عامر ادریس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ہے اللہ کا واسطہ ہے عام آدمی کے لیے سانس لینے کا موقع تو چھوڑ دیں۔ ہم نے عامر ادریس کا بھیجا ہوا کلپ سنا یقین جانیے دل سے آواز نکلی کہ کاش عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد بھی ویسے ہی رہتے جیسے اپوزیشن میں تھے کم از کم عوام کا دکھ درد تو محسوس کرتے تھے۔وزیراعظم بننے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان اس قوم کو یہ ہو گا کہ کوئی فوری طور پر کوئی امید دلانے والا نہیں بچے گا اور قوم امید دلانے والے کسی بھی شخص پر اعتبار نہیں کر سکے گی۔ ہم نے ٹاسک فورس پرائس کنٹرول کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اکتوبر دو ہزار انیس میں جو موقف میڈیا کے ذریعے عوام اور حکمرانوں تک پہنچایا تھا آج وہ آواز ہر گھر سے بلند ہو رہی ہے ہر گلی میں کھڑے لوگ وہی باتیں کر رہے ہیں، ہر چوک، ہر بیٹھک ہر دفتر میں وہی باتیں دہرائی جا رہی ہیں جو ہم مہینوں حکمرانوں کی میٹنگز میں اعلانیہ کرتے رہے۔ عوام کا مقدمہ لڑنے کے اس جرم میں وزیراعظم عمران خان یہ سمجھے کہ ہم ان کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں مزید یہ کہ ان کے کانوں تک یہی باتیں پہنچائی گئیں کہ اکرم چودھری حکومت کے مفادات کے خلاف کام کرتا ہے۔ کسی بھی نظام حکومت میں کوئی بھی سرکاری عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا مقصد عوام کے مسائل حل کرنا اور ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ اگر اس دور جی حضوری میں عوام کا مقدمہ لڑنا جرم قرار پایا ہے تو یاد رکھیں اس ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو رات کو کھا کر سوتے ہیں تو صبح کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، صبح وہ رات کا بچا کھچا کھا کر گذارہ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تبدیلی کی امید پر آپکو ووٹ دیا تھا انہیں اس کی اتنی سخت سزا تو نہ دیں۔ حکومت عام آدمی کی تنخواہ دو لاکھ نہیں کر سکتی لیکن شہریوں بیس ہزار ماہانہ تو نہ چھینیں، حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کو پچاس ارب نہ دے خزانے سے سو ارب نکال کر کم از کم عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی فراہمی کا ایسا طریقہ کار تو بنا سکتا ہے کہ انہیں آٹا، گھی، سبزیاں اور دالیں ہی سستے داموں ملتی رہیں۔
آٹا، چینی، پیٹرول غائب ہوتا ہے، ادویات پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں دیکھتے دیکھتے آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں لیکن وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے جادوگر اور عوامی مسائل حل کرنے کے خود ساختہ سائنس دان بتا رہے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ معاشی ٹیمیں بتا رہی ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں پاکستان ترقی کر رہا ہے، وزیراعظم کے سیاسی مشیر یقیناً اطلاع پہنچا رہے کہ ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وزرائ￿ یقیناً ہر میٹنگ میں یہ بتاتے ہوں گے کہ عوام کو شور کرنے کی عادت ہے یہ بلاوجہ شور کرتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کابینہ میں شامل اکثر افراد یقیناً یہی کہتے ہوں گے کہ کپتان آپ نے کمال کر دیا ہے کچھ لوگ وزیراعظم کی آمد پر یہ بھی کہتے ہوں گے ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان نیا بنے گا پاکستان۔ ممکن وزیراعظم عمران خان تک حقائق نہیں پہنچ رہے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقت جاننے میں دلچسپی ہی نہ رکھتے ہوں دوسری صورت زیادہ پریشان کن ہے کہ وہ حقیقت جاننا ہی نہ چاہتے ہوں۔
میڈیا کو وزیراعظم دشمن سمجھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کوئی تصویر کا دوسرا رخ نہ خود دیکھے نہ دکھائے بنیادی طور پر یہ رویہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ یہ رویہ مذہبی و اخلاقی طور پر بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ جب کوئی وزیراعظم ریاست مدینہ کا فلسفہ پیش کرتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس ریاست میں دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے فاتح اور بڑے کمانڈر مراد نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر بھی سوال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اجازت تو بہت بعد میں آتی ہے پہلے سوال کی طاقت اور جرات ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور ان کے خود ساختہ ناکام سائنسدان تو اس جرات اور طاقت کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی آئینہ نہ دکھا سکے۔ اگر ریاست مدینہ کے فلسفے کو بیان کرتے ہیں تو لوگوں کی باتیں سننے کا حوصلہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ کیا کسی حکمران نے تعریف کی کوئی حد مقرر کی ہے اگر تعریف کی حد مقرر نہیں کی جا سکتی تو تنقید کی مقرر کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ جھوٹی تنقید کو غلط سمجھا جاتا ہے لیکن جھوٹی تعریف پر عہدے دیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں نے یہ دوہرا معیار ہر دور میں اختیار کیا ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ لیکن یہ راستہ اختیار سب کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے جادوگر شرح سود کو پندرہ فیصد تک لے گئے آج بھی انکے مشوروں پر اہم فیصلے کیے جا رہے ہیں تو بہتری کیسے ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ کرونا نے معمولات زندگی متاثر کیے ہیں لیکن قیادت کا امتحان ایسے حالات میں ہی ہوتا ہے۔ ہر چیز کی ذمہ داری ساںق حکومت اور کرونا پر ڈال کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ انسانوں کی زندگی کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائیں۔ یہ زندہ انسان کہاں جائیں گے۔ کرونا کرونا کرتے کرتے تصویر کا ایک رخ دیکھتے دیکھتے کہیں ہم بڑا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ معیشت بحال انسان کریں گے انسان ہی نہ رہے تو یہ معیشت کس کام کی ہے۔ قرضے اتارنے ہیں ضرور اتاریں لیکن عام آدمی کی قوت خرید تو ختم نہ کریں۔ عام آدمی کی وت خرید برقرار رہے گی تو معیشت کا پہیہ چلے گا۔ اپنے شہریوں کی فکر کریں انہیں حالات کے سپرد نہ کریں اور نہ ہی زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے حکمت عملی ترتیب دیں۔ شہریوں کی قوت خرید بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی منصوبہ کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کاش کسی دن اپوزیشن والا عمران خان جاگ جائے اور سب ظالموں، چوروں، ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور لٹیروں کا خاتمہ کر دے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...