پیر کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں وفاقی بجٹ 2020-21پر بحث شروع ہوگئی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں پارلیمانی روایات کے برعکس قائدین حزب اختلاف کی بجائے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈرز نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمنٰ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا۔ آج بلاول بھٹو زرداری بجٹ پر بحث میں حصہ لیں گے۔ خواجہ آصف نے ایک گھنٹہ طویل تقریر کی تاہم وہ چوہدری نثار علی خان اور سید خورشید شاہ کی طویل تقاریر کا ریکارڈ نہیں تو ڑ سکے خواجہ آصف نے اپنی بجٹ تقریر میں حکومت کو خوب لتاڑا۔ کرونا وائرس سے لے کر ملک کی معاشی بدحالی کا جائزہ لیا بعض مواقع پر انہوں نے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں جملے بازی کی انہوں نے عمدہ تقریر کی وہ حکومت پر چھائے رہے۔ ان کی تقریر کا جواب وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے دیا قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم ،ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے ایک ایک رکن نے تقریر کی قومی اسمبلی کا اجلاس 3بجکر20منٹ تک جاری رہا جب کہ ہائوس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ اجلاس روزانہ تین گھنٹے تک جاری رہے گا جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں اس وقت ایوان میں 30ارکان موجود تھے جب اجلاس ملتوی ہوا تو 35ارکان موجود تھے ایس او پیز کے تحت حکومت کے46اور اپوزیشن کے40ارکان نے اجلاس میں بیٹھنا طے پایا ہے بہر حال اجلاس میں معاہدے کی وجہ سے اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی نہیں کی سینیٹ کا اجلاس 2 بجکر 20 منٹ تک جاری رہا۔ قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق نے شرکت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے سینیٹر شیری رحمنٰ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا 5 سینیٹرز جن میں قائد ایوان اور وفاقی وزیر نارکاٹیکس کنٹرول بھی شامل ہیں بجٹ پر اظہار خیال کیا۔ تاہم ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بھی عمدگی سے حکومت کا دفاع کیا۔ ڈاکٹر شہزاد وسیم طویل عرصہ کے بعد ایوان بالا میں آئے ہیں وہ پوری تیاری کرکے آتے ہیں، وفاقی وزیر برائے نارکوٹکس کنٹرول اعظم خان سواتی نے ایف بی آر کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کرپٹ ادارہ قرار دے دیا۔ سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ بجٹ دستاویز میں حکومتی پالیسی اور مستقبل کا روڈ میپ جھلکتا ہے، ریاست اور عوام کے درمیان احساس کا ہی رشتہ ہوتا ہے ، اس رشتے کو ہم نے مضبوط بنانا ہے۔