حکومت پاکستان سے چند سوالات کی گستاخی چاہتے ہیں۔ پاکستان کو برس ہا برس اربوں روپوں کی شکل میں خون پسینے کی کمائی بھیجنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو بے یارو مددگار کیوں چھوڑا جا رہا ہے ؟ ان کی وطن واپسی کے لئے فضائی سفر میں خصوصی رعایتی کرایہ کا نفاذ کیوں کر ممکن نہیں ؟کیا فاقہ کشی اور خود کشی پر مجبور پاکستانی محنت کشوں کا خلیجی ممالک سے انخلا بحری جہاز کے ذریعہ ممکن نہیں ؟ محنت کشوں کی وطن واپسی آخر کب تک ؟ مزدوروں کی میتیں قبروں کی منتظر آخر کب تک ؟ سفارتخانوں پر قفل آخر کب تک ؟ حکومت کے اوورسیز محنت کشوں کے ساتھ جھوٹے دعوے آخر کب تک ؟ اوورسیز پاکستانی، پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں جو ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ پاکستانی جہاں ایک طرف اپنے وطن کیلئے قیمتی زرمبادلہ بھیجنے کا ذریعہ بنتے ہیں وہاں دوسری طرف ان پاکستانیوں نے ہر قدرتی آفت میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے مگر آج بیرون ملک مقیم یہی پاکستانی شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ایسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے نظر اندازکئے جانے اور عدم تعاون پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کوئی ان کی آواز بننے کو تیار نہیں۔ ہزاروں پاکستانی مزدور بیروزگار ہوچکے ہیں۔ صرف یو اے ای میں 60ہزار سے زائد پاکستانیوں کو اْن کی کمپنیوں نے اس برے وقت میں ملازمت سے فارغ کردیا ہے اور اب اْن کے پاس رہنے کیلئے بھی کوئی ٹھکانہ نہیں جس کے باعث وہ سڑکوں پر شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں اور پاکستانی سفارتخانے اور قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کرکے اپنی وطن واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دبئی اور کراچی کے مابین سمندری فاصلہ 24 گھنٹے سے تھوڑا زیادہ ہے.حکومتیں آج تک ان دونوں شہروں کے درمیان فیری سروس بحال نہ کر سکیں۔ریاست مدینہ کے داعی پھنسے ہوئے مزدوروں کو فوری طور ہر بحری جہاز میں وطن واپس لائیں۔ایران سے آنے والے وہ زائرین کو پاکستان لے آئے اور وہ زائرین ہی پاکستان میں کرونا وائرس کی بنیاد بنے۔ ایران پاک سرحد پر ان زائرین کے لئے نہ کوئی قرنطینہ مراکز بنائے گئے اور نہ کرونا سے بچائو کی ٹھوس منصوبہ بندی اپنائی گئی۔ اب جبکہ پوری دنیا میں پاکستانی پھنس گئے ہیں اور کرونا سے نبٹنے کے لئے پوری دنیا میں منصوبہ بندی اور اسباب موجود ہیں حکومت پاکستان نا اہلی کا ثبوت کیوں دے رہی ہے ؟ خلیجی ممالک میں مزدور بیروزگار اور بے گھر سڑکوں پر پڑے ہیں۔ میتیں قبروں کی منتظر ہیں۔ حکومت پاکستان نے خلیجی پروازوں کو دوگنا ٹکٹ پر یکطرفہ مسافر لے جانے کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ پاکستانیوں کو وطن واپس لانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کو وطن واپسی سے روکنے کی بجائے ائیرپورٹ پر کرونا ٹیسٹ کا بندوبست کیا جائے اور گھروں میں قرنطینہ کی ہدایات دی جایئں مگر بے یارو مددگار بھوکے پیاسے بیروزگار بے گھر دیار غیر میں یوں مرنے کے لئے چھوڑ دینا سنگدلی نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ کرونا وائرس کے لئے مغربی ممالک زیادہ حساس ہیں لیکن کسی مغربی ملک نے اپنے شہری کی ملک واپسی پر پابندی عائد نہیں کی اور نہ اپنے کسی مسافر کو قرنطینہ مراکز میں قید کر کے رکھا۔ہم خود پاکستان چار ماہ قیام کے بعد نیو یارک لوٹے نہ کسی نے قرنطینہ مرکز بھیجا اور نہ پاکستان سے امریکہ واپس آنے سے روکا۔ امریکی شہریوں کے لئے خصوصی پروازیں چلائی گیئں اور قطر ائیر لائن بھی مسلسل شکاگو تک مسافروں کو لے کر آرہی ہے۔ حکومت پاکستان اپنے شہریوں کی وطن واپسی پر کیوں کر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ تارکین وطن کے کرونا ٹیسٹ اور علاج حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں مکمل ناکام ثابت ہوئے۔ یہ زلفی بخاری جو نجی ٹی وی پر بیٹھ کر تارکین وطن کو لالی پاپ سے بہلاتاہے اس کا تجربہ ہے کیا؟دوہری شہریت والا ارب پتی یہ نوجوان ایک پاکستانی مزدور اور سٹوڈنٹ کی تکلیف کو کیوں کر محسوس کر سکتا ہے اور شاہ محمود قریشی اپنی ذمہ داری سے آنکھیں چرا کر وزارت خارجہ کی کرسی کو داغدار تو کر ہی چکے۔زلفی بخاری ایران سے زائرین کے لئے گاڈ فادر بنا اور گلف سے مزدوروں کی واپسی پر سیاست کھیل رہا ہے ؟ اوورسیز بیروزگار بے گھر پاکستانی مزدور اور سٹوڈنٹس وطن آنے کے لئے سڑکوں پر رل رہے ہیں لیکن حلومتی ذمہ داران ٹال مٹول کر رہا ہے۔ ایران سے اپنے رشتے داروں کو تو آنے دیا اور پاکستان میں کرونا کے داخلہ کی بنیاد رکھ دی لیکن اوورسیز مزدوروں کے ساتھ سیاست کھیلی جا رہی ہیں۔